April 29, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 26

قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَشْعُرُونَ 

ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی مکر کے منصوبے بنائے تھے۔ پھر ہوا یہ کہ (منصوبوں کی) جو عمارتیں انہوں نے تعمیر کی تھیں ، اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں جڑ بنیاد سے اُکھاڑ پھینکا، پھر اُن کے اُوپر سے چھت بھی اُن پر آگری، اور اُن پر عذاب ایسی جگہ سے آدھمکا جس کا اُنہیں احساس تک نہیں تھا

 آیت۲۶:  قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِم:  «(اسی طرح کی) چالیں چلی تھیں انہوں نے بھی جو ان سے پہلے تھے»

            ان سے پہلے بھی مختلف اقوام کے لوگوں نے ہمارے انبیاء ورسل کی مخالفت کی تھی اور ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے آزمائے تھے اور سازشیں کی تھیں۔

             فَاَتَی اللّٰہُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْہِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِم:  «تو اللہ حملہ آور ہوا ان کے قلعوں پر بنیادوں سے، پھر گر پڑیں ان پر چھتیں ان کے اوپر سے»

            جب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آیا تو مخالفین کی تمام سازشوں کو جڑوں سے اُکھاڑ پھینکا گیا اور ان کی بستیوں کو تلپٹ کر دیا گیا۔ سدوم اور عامورہ کی بستیوں کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں:  فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا.  (ہود: ۸۲) «پھر جب آ گیا ہمارا حکم تو ہم نے کر دیا اس کے اوپر والے حصے کو اس کا نیچے والا»۔ یعنی اس کو تہ وبالا کر دیا۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کے اندر تو صرف انہی چند اقوام کا ذکر آیا ہے جن سے اہل عرب واقف تھے، ورنہ رسول تو ہر علاقے اور ہر قوم میں آتے رہے ہیں، ازروئے الفاظِ قرآنی:  وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ.  (الرعد) « اور ہر قوم کے لیے ایک راہنما ہے۔»

            خود ہندوستان کے علاقے میں بھی بہت سے انبیاء ورسل کے مبعوث ہونے کے آثار ملتے ہیں۔ ہریانہ، ضلع حصار، جس علاقے میں میرا بچپن گزرا، وہاں مختلف مقامات پر سیاہ رنگ کی راکھ کے بڑے بڑے ٹیلے موجود تھے، جن کی کھدائی کے دوران بستیوں کے آثار ملتے تھے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ اپنے زمانے کی ُپر رونق بستیاں تھیں، ان کے باشندوں نے اپنے رسولوں کی نافرمانیاں کیں اور انہیں عذابِ خداوندی نے جلا کر بھسم کر ڈالا، جس طرح پومپیائی پر لاوے کی بارش ہوئی اور پوری بستی جلتے ہوئے لاوے کے اندر دب گئی۔ اس علاقے میں دریائے سرسوتی بہتا تھا جو ہندوستان کا ایک بہت بڑا دریا تھا اور اسے مقدس مانا جاتا تھا (دریائے گنگا بہت بعد کے زمانے میں وجود میں آیا۔) آج دریائے سرسوتی کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ یہ کہاں کہاں سے گزرتا تھا اور ماہرین آثارِ قدیمہ اس کی گزر گاہ تلاش کر رہے ہیں۔ یہ سب آثار بتاتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر مختلف زمانوں میں انبیاء ورسل آئے اور ان کی نافرمانیوں کے سبب اُن کی قومیں اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ ان آثار کی شہادتوں کے علاوہ کچھ ایسے مکاشفات بھی ہیں کہ مشرقی پنجاب کے جس علاقے میں شیخ احمد سرہندی کا مدفن ہے اس علاقے میں تیس انبیاء مدفون ہیں۔ واللہ اعلم!

             وَاَتٰٹہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَشْعُرُوْنَ:  «اور اُن پر عذاب وہاں سے آیا جہاں سے انہیں گمان تک نہ تھا۔» 

UP
X
<>