April 28, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 40

إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ 

اورجب ہم کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہماری طرف سے صرف اتنی بات ہوتی ہے کہ ہم اُسے کہتے ہیں : ’’ ہوجا‘‘ بس وہ ہو جاتی ہے

 آیت ۴۰:  اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْئٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ:  «ہمارا قول تو کسی چیز کے بارے میں بس یہ ہوتا ہے، جب ہم اس کا ارادہ کرتے ہیں کہ ہم فرماتے ہیں اُسے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔»

            اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ حکم عالم ِامر کے بارے میں ہے، جبکہ عالم ِخلق میں یوں نہیں ہوتا (عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت اس سورۃ کی (آیت: ۲) اور سورۃ الاعراف کی (آیت: ۵۴) کے ضمن میں گزر چکی ہے)۔ عالم امر میں کسی واقعے یا کسی چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لیے اسباب، وسائل اور وقت درکار نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ارادہ فرما کر کن فرماتے ہیں تو وہ چیز وجود میں آ جاتی ہے۔ عالم خلق میں بھی کلی اختیار تو اللہ ہی کا ہے مگر اس عالم کوعام طبعی قوانین کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ چنانچہ عالم خلق میں کسی چیز کو وجود میں آنے اور مطلوبہ معیار تک پہنچنے کے لیے اسباب، وسائل اور وقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ کائنات اپنے تمام طبعی موجودات کے ساتھ عالم خلق کا اظہار ہے۔  آیت زیر نظر کے موضوع کی مناسبت سے یہاں میں کائنات کی تخلیق کے آغاز سے متعلق اپنی سوچ اور فکر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔

            کائنات کی تخلیق کے بارے میں ایک طرف تو پرانے فلسفیانہ تصورات ہیں اور دوسری طرف جدید سائنسی نظریات (theories)۔ فلسفیانہ تصورات کے مطابق سب سے پہلے وجودِ باری تعالیٰ سے عقل ِاوّل وجود میں آئی۔ عقل ِاوّل سے پھر فلک ِاوّل اور پھر فلک ِاوّل سے فلک ِثانی وغیرہ۔ یہ مشائین کے فلسفے ہیں جو ارسطو اور اس کے شاگردوں کے نظریات کے ساتھ دنیا میں پھیلے اور ہمارے ہاں بھی بہت سے متکلمین ان سے متاثر ہوئے۔ بہر حال جدید سائنسی انکشافات کے ذریعے ان میں سے کسی بھی نظریے کی کہیں کوئی تائید وتصدیق نہیں ہوئی۔

            دوسری طرف جدید فزکس کے میدان میں اعلیٰ علمی سطح پر اس سلسلے میں جتنے بھی نظریات (theories) ہیں اُن میں «عظیم دھماکے» (Big Bang) کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحتBig Bang کے نتیجے میں ارب ہا ارب درجہ حرارت کے حامل بے شمار ذرات وجود میں آئے۔ یہ ذرات تیزی سے حرکت کرتے ہوئے مختلف forms میں اکٹھے ہوئے تو کہکشائیں (galaxies) وجود میں آئیں اور چھوٹے بڑے بے شمار ستاروں کا ایک جہان آباد ہو گیا۔ انہی ستاروں میں ایک ہمارا سورج بھی تھا، جس کے اندر مزید ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس کے سیارے (planets) وجود میں آئے۔ سورج کے ان سیاروں میں سے ایک سیارہ ہماری زمین ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوتی رہی اور بالآخر اس پر نباتاتی اور حیوانی زندگی کے لیے سازگار ماحول وجود میں آیا۔ آج کی سائنس فی الحال «بگ بینگ» سے آگے کوئی نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظریے سے جو معلومات سائنس نے اخذ کی ہیں وہ ان تمام حقائق کے ساتھ مطابقت (corroboration) رکھتی ہیں جن کا علم اس موضوع پر ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔ اس سے پہلے مادے کے بارے میں سائنس قانون بقائے مادہ (Law of conservation of mass) کی قائل تھی کہ مادہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، مگرنئے نظریے کو اپنا کر سائنس نے نہ صرف بگ بینگ کو کائنات کا نقطہ آغاز تسلیم کر لیا ہے بلکہ یہ بھی مان لیا ہے کہ مادہ ایک خاص وقت تک کے لیے ہے اور ایک خاص وقت کے بعد ختم ہو جائے گا۔

            جہاں تک کائنات کی تخلیق کے آغاز کے بارے میں میری اپنی سوچ کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے ایک امر «کُن» سے ہوئی (اللہ کے حکم سے، نہ کہ اُس کی ذات سے)۔ پھر اس امر «کن» کا ظہور ایک خنک نور یا ٹھنڈی روشنی کی صورت میں ہوا (یہ خنک نور حرفِ کن کا ظہور تھا نہ کہ ذاتِ باری تعالیٰ کا)۔ اس روشنی میں حرارت نہیں تھی، گویا یہ مادی روشنی (material light) کے وجود میں آنے سے پہلے کا دور تھا۔ آج جس روشنی کو ہم دیکھتے یا پہچانتے ہیں اس میں حرارت ہوتی ہے اور اسی حرارت کی وجہ سے یہ material light ہے۔ امر «کن» سے ظہور پانے والے اس خنک نور سے پہلے مرحلے پر ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ جیسے کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ سے حدیث مروی ہے کہ «خُلِقَتِ الْمَلَائِکَۃُ مِنْ نُوْرٍ»  یعنی «اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نور سے پیدا کیا»۔ اسی نور سے انسانی ارواح پیدا کی گئیں، اورسب سے پہلے روحِ محمدی پیدا کی گئی، جیسا کہ حدیث بیان کی جاتی ہے: «اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ»  یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا۔ «نُورِی» اور «رُوحِی» گویا دو مترادف الفاظ ہیں، کیونکہ روح کا تعلق بھی نور سے ہے۔ بہرحال یہ کائنات کی تخلیق کا مرحلہ اول ہے جس میں فرشتوں اور انسانی ارواح کی تخلیق ہوئی۔

            اس کے بعد کسی مرحلے پر اس خنک نور میں کسی نوعیت کا زوردار دھماکہ (explosion) ہوا جس کو آج کی سائنس «بگ ِبینگ» کے نام سے پہچانتی ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں حرارت کا وہ گولا وجود میں آیا، جو بہت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل تھا۔ ان ذرات کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک تھا۔ یہ گویا طبعی دنیا (Physical World) کا نقطہ آغاز تھا۔ اسی دور میں اس آگ کی لپٹ سے ِجنات پیدا کیے گئے اور انہی انتہائی گرم ذرات سے کہکشائیں، ستارے اور سیارے وجود میں آئے۔

            ان سیاروں میں سے ایک سیارہ یا کرہ ہماری زمین ہے جو ابتدا میں انتہائی گرم تھی۔ اس کے ٹھنڈا ہونے پر اس کے اندر سے بخارات نکلے جو اس کے گرد ایک ہالے کی شکل میں جمع ہو گئے۔ ان بخارات سے پانی وجود میں آیا جو ہزار ہا برس تک زمین پر بارش کی صورت میں برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں تمام روئے زمین پر ہر طرف پانی ہی پانی پھیل گیا۔ اُس وقت تک زمین پر پانی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ یہی وہ دور تھا جس کا ذکر قرآن میں بایں الفاظ کیا گیا ہے:  وَکَانَ عَرْشُہ عَلَی الْمَآءِ.  (ھود: ۷) «کہ اُس کا عرش (اُس وقت) پانی پر تھا»۔ پھر زمین جب مزید ٹھنڈا ہونے پر سکڑی تو اس کی سطح پر نشیب وفراز نمودار ہوئے۔ کہیں پہاڑ وجود میں آئے تو کہیں سمندر۔ اس کے بعد نباتاتی اور حیوانی حیات کا آغاز ہوا۔ اس حیات کے ارتقاء کے بلند ترین مرحلے پر انسان کی تخلیق ہوئی اور حضرت آدم کی روح ان کے وجود کو سونپی گئی۔ حضرت آدم کی تاج پوشی کا یہی واقعہ ہے جہاں سے قرآن آدم کی تخلیق کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار بھی ہے اور اس پوری کائنات کی تخلیق کا اصل مقصود ومطلوب بھی۔

            یہاں ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ عالم ِخلق اور عالم ِامر بالکل الگ الگ نہیں ہیں۔ یعنی یوں نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں تک تو عالم خلق ہے اور یہاں سے آگے عالم امر ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے، بلکہ یہ دونوں عالم َایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط اور باہم گندھے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس عالم خلق میں تمام انسانوں کی ارواح موجود ہیں، جن کا تعلق عالم امر سے ہے:  وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ.  (بنی اسرائیل: ۸۵) یہ  آیت واضح کرتی ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی مشہور ِ زمانہ کتاب «حجۃ اللہ البالغہ» میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض نیک بندوں کی ارواح کو فرشتوں کے طبقہ ٔاسفل میں شامل کر لیتے ہیں، چنانچہ یہ نیک ارواح ان فرشتوں کے ساتھ سرگرمِ عمل رہتی ہیں جو اللہ کے احکام کی تعمیل وتنفیذ میں مصروف ہیں۔ اسی طرح فرشتے جو کہ عالم امر کی مخلوق ہیں وہ بھی یہاں عالم خلق میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ دو دو فرشتے تو ہم میں سے ہر انسان کے ساتھ بطور نگران مقرر کیے گئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

«مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہ بَیْنَھُمْ اِلاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہ»

 «اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کچھ لوگ کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کوسمجھنے اور سمجھانے کے لیے جمع نہیں ہوتے مگر یہ کہ ان کے اوپر سکینت نازل ہوتی ہے، اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین (ملأ اعلیٰ) میں ان کا ذکر کرتا ہے۔»

اس حدیث کی رو سے درسِ قرآن کی اس محفل میں یقینا فرشتے موجود ہیں، وہ عالم امر کی شے ہیں، ہم نہ انہیں دیکھ سکتے ہیں نہ ان سے خطاب کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اہل ِایمان جنات بھی موجود ہوں اور قرآن سن رہے ہوں۔ چنانچہ ارواح، فرشتے اور وحی تینوں کا تعلق اگرچہ عالم امر سے ہے مگر ان کا عمل دخل عالم خلق میں بھی ہے۔ اس طرح عالم خلق اور عالم امر کو بالکل الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔

            یہاں میں مرزا عبد القادر بیدل کے ایک مشہور شعر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو تخلیق کائنات اور تخلیق آدم کے اس فلسفہ کو بہت خوبصورتی سے واضح کرتا ہے:

ہر دو عالم ِخاک شد تا بست نقش ِآدمی

اے بہارِ نیستی از قدرِ خود ہشیار باش!

مرزا عبد القادر بیدل ہندوستان میں اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تھے۔ وہ عظیم فلسفی اور فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کا شمار دنیا کے چوٹی کے فلسفیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے سامنے مرزا غالب بھی پانی بھرتے اور ان کی طرز کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں:

طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا

اسد اللہ خاں    قیامت ہے!

موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہاں مرزا بیدل کے مندرجہ بالا شعر کی وضاحت ضروری ہے۔ اس شعر میں وہ فرماتے ہیں: « ہر دوعالم خاک شد» یعنی دونوں عالم خاک ہو گئے۔ شاعر کے اپنے ذہن میں اس کی وضاحت کیا تھی اس کے بارے میں شاعر خود جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ ---- لیکن میں اس سے یہ نکتہ سمجھا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ِعالم امر کو تنزل کے مختلف مراحل سے گزار کر عالم ِخلق کی شکل دی۔ پھر اس کے مزید تنزلات کے نتیجے میں زمین (مٹی) پیدا کی گئی۔ گویا دونوں جہانوں نے خاک کی صورت اختیار کر لی، تب جا کر کہیں حیاتِ ارضی کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر اس سلسلے میں ارتقا کا وہ بلند ترین مرحلہ آیا:  «تابست نقش آدمی!» جب آدمی کا نقش بننا شروع ہوا۔

            دوسرے مصرعے میں (اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش!) «نیست» کے فلسفے کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ «وحدت الوجود» کے فلسفے کے مطابق حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے، باقی جو کچھ بھی ہمیں نظر آتا ہے اس میں سے کسی چیز کا وجود حقیقی نہیں ہے۔ گویا اللہ کے علاوہ اس کائنات کی ہر چیز «نیست» ہے «ہست» نہیں ہے:  

کُلُّ مَا فِی الْـکَوْنِ وھْمٌ اَو خَیَالٌ

اَوعُکُوسٌ فِی المَرایَا  اَو ظِلَال

 یعنی اللہ کے وجود کے علاوہ جو وجود بھی نظر آتے ہیں وہ وہم ہیں یا خیالی تصویریں۔ اس طرح یہ تمام َعالم گویا «نیست» ہے اور اس عالم ِنیست کی «بہار» انسان ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  خَلَقْتُ بِیَدَیَّ.  (صٓ: ۷۵) کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔ اللہ کا ایک ہاتھ گویا عالم امر اوردوسرا ہاتھ عالم خلق ہے۔ اس طرح انسان اللہ تعالیٰ کے عمل ِتخلیق کا کلائمکس، مسجودِ ملائک اور خلیفۃ اللہ ہے۔ چنانچہ مرزا بیدل فرماتے ہیں: (اے بہارِ نیستی از قدر خود ہوشیار باش!) کہ اے انسان! اے اس عالم ِنیستی کی بہار! ذرا اپنے مقام ومرتبہ کو پہچانو! تمہیں وجود میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دو عالم کو نہ جانے تنزلات کی کن کن منازل سے نیچے اُتار کر خاک کیا، تب کہیں جا کر تمہارا نقش بنا۔ 

UP
X
<>