May 18, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 92

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ۭ تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا بَيْنَكُمْ اَنْ تَكُوْنَ اُمَّةٌ هِىَ اَرْبٰى مِنْ اُمَّةٍ ۭ اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِه ۭ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ

اور مت رہو جیسے وہ عورت کہ توڑا اس نے اپنا سوت کاتا ہوا محنت کے بعد ٹکڑے ٹکڑے، کہ ٹھہراؤ اپنی قسموں کو دخل دینے کا بہانہ ایک دوسرے میں اس واسطے کہ ایک فرقہ ہو چڑھا ہوا دوسرے سے، یہ تو اللہ پرکھتا ہے تم کو اس سے اور آئندہ کھول دے گا اللہ تم کو قیامت کے دن جس بات میں تم جھگڑ رہے تھے.

 آیت ۹۲:  وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًا:  « اور مت ہو جاؤ اُس (دیوانی) عورت کی مانند جس نے اپنا سوت توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، مضبوطی (سے کاتنے) کے بعد۔»

            دیکھوتم تو ایک مدت سے نبی آخر الزماں کے منتظر چلے آ رہے تھے اور اہل ِعرب کو اس حوالے سے دھمکایا بھی کرتے تھے کہ نبی آخر الزمان آنے والے ہیں، جب وہ تشریف لے آئے تو ہم ان کے ساتھ مل کر تم لوگوں پر غالب آ جائیں گے۔ اب جب کہ وہ نبی آ گئے ہیں تو تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم اُن کو جھٹلانے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہے ہو! تو کیا اب تم لوگ اپنے منصوبوں اور افکار ونظریات کے تانے بانے خود اپنے ہی ہاتھوں تار تار کر دینے پر تل گئے ہو؟ کیا اُس دیوانی عورت کی طرح تمہاری بھی مت ماری گئی ہے جو بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ کاتے ہوئے اپنے سوت کی تار تار ادھیڑ کے رکھ دے؟

             تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلاً بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ہِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍ:  «تم اپنی قسموں کو اپنے مابین دخل دینے کا ذریعہ بناتے ہو تاکہ نہ ہو جائے ایک قوم بڑھی ہوئی دوسری قوم سے۔»

            یعنی تم نے تواس معاملے کو گویا دو قوموں کا تنازعہ بنا لیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی بشارت تمہاری کتاب میں موجود ہے، تم آپس میں عہد وپیمان کر رہے ہو، قسمیں کھا رہے ہو کہ ہم ہر گز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ تمہاری اس ہٹ دھرمی کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ تم قومی عصبیت میں مبتلا ہو چکے ہو۔ چونکہ اس آخری نبی کا تعلق بنی اسماعیل یعنی اُمیین سے ہے، اس لیے تم لوگ نہیں چاہتے کہ بنی اسماعیل کو اب ویسی ہی فضیلت حاصل ہو جائے جو پچھلے دو ہزار سال سے تم لوگوں کو حاصل تھی۔

             اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللّٰہُ بِہ:  «یقینا اللہ تمہیں آزما رہا ہے اس کے ذریعے سے۔»

            اس میں تمہاری آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم لوگ حق پرست ہو یا نسل پرست؟ اگر تم لوگ اس معاملے میں نسل پرستی کا ثبوت دیتے ہو تو جان لو کہ اللہ سے تمہارا کوئی تعلق نہیں اور اگر حق پرست بننا چاہتے ہو تو تمہیں سوچنا چاہیے کہ ایک مدت تک اللہ تعالیٰ نے نبوت تمہاری نسل میں رکھی اور اب اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے ایک فرد کو اس کے لیے چن لیا ہے۔ لہٰذا اسے اللہ کا فیصلہ سمجھتے ہوئے تمہیں قبول کر لینا چاہیے۔ تمہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بنی اسماعیل بھی تو آخر تمہاری ہی نسل میں سے ہیں۔ وہ بھی تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم ہی کی اولاد ہیں، مگر تم لوگ ہو کہ تم نے اس معاملے کو باہمی مخاصمت اور ضد: بَغْیًا بَیْنَہُم:  کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اس طرح تم لوگ اللہ کی اس آزمائش میں ناکام ہو رہے ہو۔

             وَلَیُبَیِّنَنَّ لَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ:  «اور وہ ضرور ظاہر کرے گا تم پر قیامت کے دن وہ سب کچھ جس میں تم لوگ اختلاف کرتے تھے۔» 

UP
X
<>