May 18, 2024

قرآن کریم > النحل >surah 16 ayat 93

وَلَوْ شَاء اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلكِن يُضِلُّ مَن يَشَاء وَيَهْدِي مَن يَشَاء وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ 

اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی فرقہ کر دیتا لیکن راہ بھلاتا ہے جس کو چاہے اور سجھاتا ہے جس کو چاہے، اور تم سے پوچھ ہو گی جو کام تم کرتے تھے.

 آیت ۹۳:  وَلَوشَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃ:  «اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی اُمت بنا دیتا»

            اللہ تعالیٰ یہ بھی کر سکتا تھا کہ پوری انسانیت کو ایک ہی امت بنا دیتا تاکہ نسلوں اور قوموں کی یہ تفریق ہی نہ ہوتی اور نہ ہی ایک امت کو معزول کر کے دوسری امت کو نوازنے کی ضرورت پیش آتی۔ پھر جس اللہ نے بخت نصر کے ہاتھوں تمہاری بربادی کے بعد حضرت عزیر کی دعوتِ توبہ کے ذریعے تمہاری نشأۃ ثانیہ کی تھی، وہ یہ بھی کر سکتا تھا کہ ایک دفعہ پھر کسی اصلاحی تحریک کے ذریعے تمہیں اپنی ہدایت اور رحمت سے نواز دیتا۔ اس طرح آخری نبی بھی تم ہی میں آتے اور یہ قرآن بھی تم ہی کو ملتا۔ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو یہ سب کچھ ممکن تھا۔

             وَّلٰــکِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ:  «لیکن وہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتاہے۔»

            آیت کے اس حصے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ «وہ گمراہ کرتا ہے اُسے جو (گمراہی) چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے اُسے جو (ہدایت) چاہتا ہے۔»         

             وَلَتُسْئَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ:  «اور تم سے ضرور پوچھا جائے گا اُس بارے میں جو کچھ تم کرتے تھے۔»

            یعنی اِس وقت تم لوگ ایک بہت بڑے امتحان سے دو چار ہو۔ تمہارے پاس نبی آخر الزماں کے بارے میں واضح نشانیوں کے ساتھ علم آ چکا ہے اور تم اللہ کی کتاب کے وارث بھی ہو۔ اس کے باوجود اگر تم نے ہمارے نبی کی تصدیق نہ کی اور آپ کو جھٹلانے پر تلے رہے تو اس بارے میں تم سے ضرور جواب طلبی ہو گی۔

            اب ذرا سورۃ البقرہ کی ان آیات کو ذہن میں تازہ کیجئے:

 یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ وَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلاَ تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہ وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً وَّاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ وَلاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ: 

 «اے بنی اسرائیل! یاد کرو تم میری وہ نعمت جو میں نے تم پر انعام کی، اور پورا کرو میرا عہد، میں پورا کروں گا تمہارے (ساتھ کیے گئے) عہد کو اور مجھ ہی سے ڈرو۔ اور ایمان لاؤ اُس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے، جو تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اُس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے، اور مت ہو جاؤ تم ہی سب سے پہلے اس کا کفر کرنے والے، اور مت بیچو میری آیات کو تھوڑی سی قیمت کے عوض اور میرا ہی تقویٰ اختیار کرو۔ اور نہ ملاؤ حق کو باطل کے ساتھ اور نہ چھپاؤ حق کو جانتے بوجھتے۔»

            ان آیات کو پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سورۃ النحل میں جو بات اَوْفُوْا بِعَہْدِ اللّٰہِ سے شروع ہوئی ہے یہ گویا تمہید ہے اُس مضمون کی جو سورۃ البقرۃ کی مندرجہ بالا آیات کی شکل میں مدینہ جا کر نازل ہونے والا تھا۔ 

UP
X
<>