May 19, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 101

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ إِذْ جَاءهُمْ فَقَالَ لَهُ فِرْعَونُ إِنِّي لأَظُنُّكَ يَا مُوسَى مَسْحُورًا 

اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی کھلی نشانیاں دی تھیں ۔ اب بنو اسرائیل سے پوچھ لو کہ جب وہ ان لوگوں کے پاس گئے تو فرعون نے اُن سے کہا کہ : ’’ اے موسیٰ ! تمہارے بارے میں میرا تو خیال یہ ہے کہ کسی نے تم پر جادو کر دیا ہے۔‘‘

 آیت ۱۰۱:   وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ:   «اور ہم نے موسی ٰ کو نو واضح نشانیاں عطا کی تھیں»

            ان میں سے دو نشانیاں تو وہ تھیں جو آپ کو ابتدا میں عطا ہوئی تھیں، یعنی عصا کا اژدھا بن جانا اور ید ِبیضا۔  ان کے علاوہ سات نشانیاں وہ تھیں جن کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیات: ۱۳۰اور ۱۳۳میں ہوا ہے۔  یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف قسم کے عذاب تھے  (قحط سالی، پھلوں اور فصلوں کا نقصان، طوفان، ٹڈی دل، چچڑیاں، مینڈک اور خون) جو مصر میں قومِ فرعون پر مختلف اوقات میں آتے رہے۔  جب وہ لوگ عذاب کی تکالیف سے تنگ آتے تو اسے ٹالنے کے لیے حضرت موسیٰ سے دعا کی درخواست کرتے اور حضرت موسیٰ کی دعا سے وہ عذاب ٹل جاتا۔  

            یہاں یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ سورت کے آغاز میں بھی حضرت موسیٰ کا ذکر ہوا تھا اور اب آخر میں بھی آپ کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔  یہ اسلوب ہمیں قرآن حکیم کی ان سورتوں میں ملتا ہے جو ایک خطبے کے طور پر ایک ہی تنزیل میں نازل ہوئی ہیں۔ ایسی سورتوں کی ابتدائی اور آخری آیات خصوصی اہمیت اور فضیلت کی حامل ہوتی ہیں اور ان کے مضامین میں ایک خاص ربط پایا جاتا ہے۔ سورت کے آغاز میں حضرت موسیٰ کی حیاتِ مبارکہ کے اُس دور کا ذکر کیا گیا ہے جب آپ مصر سے نکل کر صحرائے سینا میں آ چکے تھے اور وہاں سے آپ کو کوہِ طور پر بلا کر تورات عطا کی گئی تھی:  وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَلاَّ تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً:   «اور ہم نے موسی ٰ کو کتاب (تورات) دی اور ہم نے اُسے بنایا ہدایت بنی اسرائیل کے لیے، کہ تم مت بناؤ میرے سوا کسی کو کارساز»۔  اب آخر میں بنی اسرائیل کے زمانۂ مصر کے حالات کے حوالے سے پھر حضرت موسیٰ کا ذکر کیا جا رہا ہے:

              فَسْأَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِذْجَآءَہُمْ فَقَالَ لَہُ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا:   «تو ذرا پوچھیں بنی اسرائیل سے (اس زمانے کا حال) جب کہ موسیٰ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ اے موسیٰ میں تو تمہیں ایک سحر زدہ آدمی سمجھتا ہوں۔»

            دیکھئے جو الفاظ فرعون نے حضرت موسیٰ سے کہے تھے عین وہی الفاظ حضور کے لیے آپ کے مخالفین کی طرف سے استعمال کیے گئے ہیں۔  اسی سورت میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ قریش مکہ آپ کے بارے میں کہتے تھے:  اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلاَّ رَجُلاً مَّسْحُوْرًا:   «تم نہیں پیروی کر رہے مگر ایک سحر زدہ شخص کی۔» 

UP
X
<>