May 19, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 16

وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا

اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اُس کے خوش حال لوگوں کو (ایمان اور اطاعت کا) حکم دیتے ہیں ، پھر وہ وہاں نافرمانیاں کرتے ہیں ، تو ان پر بات پوری ہو جاتی ہے، چنانچہ ہم اُنہیں تباہ وبرباد کر ڈالتے ہیں

 آیت ۱۶:  وَاِذَآاَرَدْنَآ اَنْ نُّہْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوْا فِیْہَ:   «اور جب ہم ارادہ کرتے کہ تباہ کر دیں کسی بستی کو تو ہم اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے اوروہ اس میں خوب نافرمانیاں کرتے»

              فَحَقَّ عَلَیْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِیْرًا:   «پس ثابت ہو جاتی اس پر (عذاب کی) بات، پھر ہم اس کو بالکل نیست و نابود کر دیتے۔»

            یہاں کسی بستی پر عذاب ِاستیصال کے نازل ہونے کا ایک اصول بتایا جا رہا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اس کا سبب وہاں کے دولت مند اور خوشحال لوگ بنتے ہیں۔ یہ لوگ علی الاعلان اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانیاں کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی دیدہ دلیری کے سبب ان کی رسی مزید دراز کی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی عیاشیوں اور من مانیوں میں تمام حدیں پھلانگ کر پوری طرح عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں،  عوام انہیں ان کے کرتوتوں سے باز رکھنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتے،  بلکہ ایک وقت آتا ہے جب وہ بھی ان کے ساتھ جرائم میں شریک ہو جاتے ہیں اور یوں ایسا معاشرہ اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ ایسے میں صرف وہی لوگ عذاب سے بچ پاتے ہیں جو نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہے ہوں۔ 

UP
X
<>