May 19, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 18

مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاء لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا 

جو شخص دنیا کے فوری فائدے ہی چاہتا ہے تو ہم جس کیلئے چاہتے ہیں ، جتنا چاہتے ہیں ، اُسے یہیں پر جلدی دے دیتے ہیں ، پھر اُس کیلئے ہم نے جہنم رکھ چھوڑی ہے جس میں وہ ذلیل وخوار ہو کر داخل ہوگا

 آیت ۱۸:  مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیْہَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْد:   «جو کوئی عاجلہ کا طلب گار بنتا ہے ہم اس کو جلدی دے دیتے ہیں اس میں سے جو کچھ ہم چاہتے ہیں، جس کے لیے چاہتے ہیں»

            یہاں پر «دنیا» کی بجائے «عاجلہ» کا لفظ آیا ہے۔  یہ دونوں الفاظ مؤنث ہیں۔  «ادنیٰ» قریب کی چیز کو کہا جاتا ہے، اس کی مونث «دنیا» ہے جبکہ «عاجل» کے معنی جلدی والی چیز کے ہیں اوراس کی مؤنث «عاجلہ» ہے۔  یہ دنیا نقد کا سودا ہے، یہاں پر راحت بھی فوراً آسودگی دیتی ہے اور اس کی تکلیف بھی فوری طور پر خود کو محسوس کراتی ہے۔  اسی لیے اسے «عاجلہ» کہا گیا ہے۔  عاجلہ کے مقابلے میں آیت زیر نظر میں «آخرت» کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کہ قرآن حکیم میں اکثر «دنیا» کے مقابلے میں بھی آتا ہے۔  دنیا یا عاجلہ کے مقابلے میں آخرت کو آخرت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثواب وعذاب بعد میں آنے والی چیز ہے۔

            آیت زیر نظر میں جو اصول بیان ہوا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ جو شخص دنیا کی عیش اور دنیا کی دولت و شہرت حاصل کرنے کا خواہش مند ہو اورصرف اسی کے لیے منصوبہ بندی، محنت اور دوڑ دھوپ کرے، اس کی محنت اور دوڑ دھوپ کو اللہ کسی نہ کسی درجہ میں کامیاب کر دیتا ہے، مگرضروری نہیں کہ جس قدر کوئی دنیا سمیٹنا چاہے اسی قدر اسے مل بھی جائے۔  اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو کوئی بھی اس «عاجلہ» کو پانے کی دوڑ میں شامل ہو، کامیاب ٹھہرے، بلکہ ہر کسی کو وہی کچھ ملے گا جو اللہ چاہے گا، اور صرف اسی کو ملے گا جس کے لیے وہ چاہے گا۔  بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو حصولِ دنیا کے لیے ساری عمر اپنے آپ کو ہلکان کر دیتے ہیں، مگر دنیا پھر بھی ہاتھ نہیں آتی۔  چنانچہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ جس کو وہ چاہتا ہے اور جس قدر چاہتا ہے دنیا میں اس کی محنت کا صلہ دے دیتا ہے۔

              ثُمَّ جَعَلْنَا لَہ جَہَنَّمَ یَصْلٰہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا:   «پھر ہم مقرر کر دیتے ہیں اس کے لیے جہنم۔ وہ داخل ہو گا اس میں ملامت زدہ، دھتکارا ہوا۔»

            اس شخص کی خواہش اور محنت سب دنیا کے لیے کی تھی، چنانچہ دنیا کسی نہ کسی قدر اسے دے دی گئی۔  آخرت کے لیے اس نے خواہش کی تھی اور نہ محنت، لہٰذا آخرت میں سوائے جہنم کے اس کے لیے اور کچھ نہیں ہو گا۔ 

UP
X
<>