May 5, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 26

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهُ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا 

اور رشتہ دار کو اُس کا حق دو، اور مسکین اور مسافر کو (اُن کا حق، ) اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں نہ اُڑاؤ

 آیت ۲۶:  وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا:   «اور حق ادا کرو قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کا اور فضول میں مال مت اڑاؤ۔»

            تبذیر: کے معنی بلا ضرورت مال اڑانے کے ہیں اور یہ اسراف سے بڑا جرم ہے۔  اسراف تو یہ ہے کہ کسی ضرورت میں ضرورت سے زائد خرچ کیا جائے۔  مثلاً کھانا کھانا ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت دو روٹیوں اور تھوڑے سے سالن سے بخوبی پوری ہو جاتی ہے، مگر اسی ضرورت کے لیے اگر کئی کئی کھانوں پر مشتمل دستر خوان سجا دیے جائیں تو یہ اسراف ہے۔  اسی طرح کپڑا انسان کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک دو جوڑے کافی ہیں۔  اب اگر الماریوں کی الماریاں طرح طرح کے جوڑوں، سوٹوں اور پوشاکوں سے بھری پڑی رہیں تو یہ اسراف کے زمرے میں آئے گا۔  اسراف کے مقابلے میں تبذیر سے مراد ایسے بے تحاشا اخراجات ہیں جن کی سرے سے ضرورت ہی نہ ہو، مثلاً شادی بیاہ کی رسموں پر بے حساب خرچ کرنا اور نام و نمود کے لیے طرح طرح کے مواقع پیدا کر کے ان پر مال و دولت کو ضائع کرنا تبذیر ہے۔  

UP
X
<>