May 5, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 29

وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا

اور نہ تو (ایسے کنجوس بنو کہ) اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر رکھو، اور نہ (ایسے فضول خرچ کہ) ہاتھ کو بالکل ہی کھلا چھوڑدو جس کے نتیجے میں تمہیں قابلِ ملامت اور قلاش ہو کر بیٹھنا پڑے

 آیت ۲۹:  وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِک:   «اور نہ باندھ لو اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کے ساتھ»

            یہ استعارہ ہے بخل اور کنجوسی کا۔  یعنی آپ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کے ساتھ باندھ کر کسی کو کچھ دینے سے خود کو معذور نہ کر لیں۔

              وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْط:   «اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو»

            بعض اوقات انسان کے اندر نیکی کا جذبہ اس قدر جوش کھاتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دینا چاہتا ہے۔

              فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا:   «کہ پھر بیٹھے رہو ملامت زدہ ہارے ہوئے۔»

            ایسا نہ ہو کہ ایک وقت میں تو جذبات میں آ کر انسان سارا مال قربان کر دے مگر بعد میں پچھتائے کہ یہ میں نے کیا کر دیا؟ اب کیا ہو گا؟ اب میری اپنی ضروریات کہاں سے پوری ہوں گی؟ چنانچہ انسان کو ہر حال میں اعتدال کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ 

UP
X
<>