May 16, 2024

قرآن کریم > الإسراء >surah 17 ayat 60

وَاِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ۭ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا 

اور (اے پیغمبر !) وہ وقت یا دکرو جب ہم نے کہا تھا کہ تمہاراپروردگار (اپنے علم سے) تمام لوگوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اور ہم نے جو نظارہ تمہیں دکھا یا ہے، اُس کو ہم نے (کافر) لوگوں کیلئے بس ایک فتنہ بنا دیا، نیز اُس درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت آئی ہے۔ اور ہم تو ان کو ڈراتے رہتے ہیں ، لیکن اس سے ان کی سخت سرکشی ہی میں اضافہ ہو رہا ہے

 آیت ۶۰:  وَاِذْ قُلْنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ:   «اور جب ہم آپ سے کہتے ہیں کہ آپ کے رب نے لوگوں کا احاطہ کیا ہوا ہے۔»

            قرآن حکیم کی بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، مثلاً :   وَّاللّٰہُ مِنْ وَّرَآهمْ مُّحِیْطٌ :    (البروج)  «اور اللہ ان کا ہر طرف سے احاطہ کیے ہوئے ہے»۔  یہ لوگ جب ایسی آیات سنتے ہیں تو ڈرنے کی بجائے فضول بحث پر اتر آتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ کہاں ہے اللہ؟ ہمارا احاطہ کیوں کر ہوا ہے؟

            اگر فلسفیانہ پہلو سے دیکھا جائے تو اس آیت میں «حقیقت و ماہیت ِوجود» کے موضوع سے متعلق اشارہ پایا جاتا ہے جو فلسفے کا مشکل ترین مسئلہ ہے اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا نہیں ہے، یعنی ایک وجود خالق کا ہے، وہ ہر جگہ،  ہر آن موجود ہے، اورایک وجود مخلوق یعنی اس کائنات کا ہے۔  اب خالق و مخلوق کے مابین ربط کیا ہے؟ اس سلسلے میں کچھ لوگ «ہمہ اوست»  (Pantheism) کے قائل ہو گئے۔  ان کے خیال کے مطابق یہ کائنات ہی خدا ہے، خدا نے ہی کائنات کا روپ دھار لیا ہے، جیسے خدا خود ہی انسانوں کا روپ دھار کر «اوتار» کی صورت میں زمین پر آ جاتا ہے۔ یہ بہت بڑا کفر اور شرک ہے۔  دوسری طرف اگر یہ سمجھیں کہ اللہ کا وجود اس کائنات میں نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُس کا وجود کہیں الگ ہے اور وہ نعوذ باللہ کہیں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔  بہرحال یہ مسئلہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔  ہمیں بس اس قدر سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ کا وجود مطلق  (Absolute) ہے۔  وہ حدود و قیود، زمان و مکان، کسی سمت یا جہت کے تصور سے ماوراء، وراء الوراء، ثم وراء الوراء ہے۔  

              وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنٰکَ اِلاَّ فِتْنَۃً لِّلنَّاس:   «اور نہیں بنایا ہم نے اس مشاہدے کو جو ہم نے آپ کو دکھایا تھا مگر ایک فتنہ لوگوں کے لیے»

            یہاں پرلفظ «رؤیا» خواب کے معنی میں نہیں آیا بلکہ اس سے رُؤیت بصری مراد ہے۔  انسان اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھتا ہے اس پر بھی «رؤیا» کا اطلاق ہوتا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے شب معراج میں حضور کو جو مشاہدات کرائے تھے اور جو نشانیاں آپ کو دکھائی تھیں اُن کی تفصیل جب کفارِ مکہ نے سنی تو یہ معاملہ ان کے لیے ایک فتنہ بن گیا۔  وہ نہ صرف خود اس کے منکر ہوئے، بلکہ اس کی بنیاد پر وہ مسلمانوں کو اُن کے دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر انہوں نے پوری شد و مد سے یہ پرچار شروع کر دیا کہ محمد پر جنون کے اثرات ہو چکے ہیں  (معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ)۔  اس زمانے میں جب مکہ سے بیت المقدس پہنچنے میں پندرہ دن لگتے تھے، یہ دعویٰ انتہائی ناقابل ِیقین معلوم ہوتا تھا کہ کوئی شخص راتوں رات نہ صرف بیت المقدس سے ہو آیا ہے بلکہ آسمانوں کی سیر بھی کر آیا ہے۔  چنانچہ انہوں نے موقع غنیمت سمجھ کر اس موضوع کو خوب اچھالا اور مسلمانوں سے بڑھ چڑھ کر بحث مباحثے کیے۔  اس طرح نہ صرف یہ بات کفار کے لیے فتنہ بن گئی بلکہ مسلمانوں کے لیے بھی ایک آزمائش قرار پائی۔  

            جب یہی نا قابل یقین بات ان لوگوں نے حضرت ابو بکر سے کی اور آپ سے تبصرہ چاہا تو آپ نے بلا توقف جواب دیا کہ اگر واقعی حضور نے ایسا فرمایا ہے تو یقینا سچ فرمایا ہے، کیونکہ جب میں یہ مانتا ہوں کہ آپ کے پاس آسمانوں سے ہر روز فرشتہ آتا ہے تو مجھے آپ کا یہ دعویٰ تسلیم کرنے میں آخر کیونکر تامل ہوگا کہ آپ راتوں رات آسمانوں کی سیر کر آئے ہیں! اسی بلا تامل تصدیق کی بنا پر اس دن سے حضرت ابو بکر کا لقب «صدیق اکبر» قرار پایا۔  

              وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ فِی الْقُرْاٰنِ:   «اور اُس درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت وارد ہوئی ہے۔»

            اسی طرح جب قرآن میں زقوم کے درخت کا ذکر آیا اور اس کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ اس درخت کی جڑیں جہنم کی تہہ میں ہوں گی  ( الصافات: ۶۴)  اور وہاں سے یہ جہنم کی آگ میں پروان چڑھے گا تو یہ بات بھی ان لوگوں کے لیے فتنے کا باعث بن گئی۔  بجائے اس کے کہ وہ لوگ اسے اللہ کی قدرت سمجھ کر تسلیم کر لیتے، الٹے اس بات پر تمسخر اور استہزا کرنے لگے کہ آگ کے اندر بھلا درخت کیسے پیدا ہو سکتے ہیں؟ انہیں کیا معلوم کہ یہ اُس عالم کی بات ہے جس کے طبعی قوانین اس دنیا کے طبعی قوانین سے مختلف ہوں گے اور جہنم کی آگ کی نوعیت اور کیفیت بھی ہماری دنیا کی آگ سے مختلف ہو گی۔

              وَنُخَوِّفُہُمْ فَمَا یَزِیْدُہُمْ اِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیْرًا:   «اور (ان باتوں سے) ہم تو انہیں تنبیہ کرتے ہیں مگر یہ تنبیہ ان کی سرکشی ہی میں اضافہ کیے جا رہی ہے۔»

            قرآن میں یہ سب باتیں انہیں خبردار کرنے کے لیے نازل ہوئی ہیں، مگر یہ ان لوگوں کی بد بختی ہے کہ اللہ کی آیات سن کر ڈرنے اور ایمان لانے کی بجائے وہ مزید سرکش ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی سرکشی میں روز بروز مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

UP
X
<>