May 4, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 42

وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَى مَا أَنفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا 

اور (پھر ہوا یہ کہ) اُ س کی ساری دولت عذاب کے گھیرے میں آگئی، اور صبح ہوئی تو اِس حالت میں کہ اُس نے باغ پر جو کچھ خرچ کیا تھا، وہ اُس پر ہاتھ ملتا رہ گیا، جبکہ اُس کا باغ ٹٹیوں پر گرا پڑا تھا، اور وہ کہہ رہا تھا : ’’کاش ! میں نے اپنے رَبّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانا ہوتا۔‘‘

 آیت ۴۲:   وَاُحِیْطَ بِثَمَرِہِ: «اور اُس کا سارا ثمر سمیٹ لیا گیا»

             اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نعمتیں دی گئی تھیں وہ سب اس سے سلب کر لی گئیں۔ باغ بھی اجڑ گیا اور اولاد بھی چھن گئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسرا شخص اللہ کا خاص مقرب بندہ تھا۔ مال دار شخص نے اسے اس کی ناداری کا طعنہ دیا تھا:    اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا: کہ مال و دولت میں بھی مجھے تم پر فوقیت حاصل ہے اور نفری میں بھی میں تم سے بڑھ کر ہوں۔ اس طعنے سے اللہ کے اس نیک بندے کا دل دکھا ہو گا، جس کی سزا اسے فوری طور پر ملی اور اللہ نے اس سے سب کچھ چھین لیا۔ اس سلسلے میں ایک حدیث قدسی ہے: «مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیاًّ فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ»   «جو شخص میرے کسی ولی کے ساتھ دشمنی کر ے تو میری طرف سے اُس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے»۔ کسی شاعر نے اس مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے:

تا دلِ صاحب دلے  نالد  بہ درد

ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد!

            یعنی کسی صاحب دل ولی اللہ کے دل کو جب ٹھیس لگتی ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پوری قوم گرفت میں آ جاتی ہے۔

               فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیْہِ عَلٰی مَآ اَنْفَقَ فِیْہَا:  «تو وہ ہاتھ ملتا رہ گیا اس پر جو کچھ اس نے اس میں خرچ کیا تھا»

            یقینا ان باغوں کی منصوبہ بندی کرنے، پودے لگانے اور ان کی نشوونما کرنے میں اس نے زرِ کثیر خرچ کیا تھا، مسلسل محنت کی تھی اور اپنا قیمتی وقت اس میں کھپایا تھا۔ اس کا یہ تمام سرمایہ آن کی آن میں نیست و نابود ہو گیا اور وہ اس کی بربادی پر کف ِافسوس ملنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکا۔

               وَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا:  «اور وہ (باغ) گرا پڑا تھا اپنی چھتریوں پر»

            انگوروں کی بیلیں جن چھتریوں پر چڑھائی گئی تھیں وہ سب کی سب اوندھی پڑی تھیں۔

               وَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیْٓ اَحَدًا: «اور وہ کہہ رہا تھا: ہائے میری شامت، کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا۔»

            اس مال دار شخص کے مکالمے سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اُس شخص نے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے اختیار کو بھلا کر ظاہری اسباب اور مادی وسائل پر توکل کر لیا تھا، اور یہی وہ شرک تھا جس کا خود اس نے یہاں اعتراف کیا ہے۔ آج کی مادہ پرستانہ ذہنیت کا مکمل نقشہ اس رکوع میں پیش کر دیا گیا ہے۔ یہ شرک کی جدید قسم ہے جس کو پہچاننے اور جس سے محتاط رہنے کی آج ہمیں اشد ضرورت ہے۔ (اس حوالے سے میری کتاب «حقیقت واقسامِ شرک» کا مطالعہ مفید رہے گا، جس میں شرک اور اس کی اقسام کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔) 

UP
X
<>