May 4, 2024

قرآن کریم > الكهف >surah 18 ayat 45

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاء أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاء فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا 

اور ان لوگوں سے دنیوی زندگی کی یہ مثال بھی بیان کر دو کہ وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا، تو اُس سے زمین کا سبزہ خوب گھنا ہوگیا، پھر وہ ایسا ریزہ ریزہ ہوا کہ اُسے ہوائیں اُڑا لے جاتی ہیں ۔ اور اﷲ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے

 آیت ۴۵:   وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا:  «اور بیان کیجیے ان کے لیے مثال دُنیا کی زندگی کی»

               کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰـہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الْاَرْضِ:  «جیسے پانی کہ ہم نے اسے اتارا آسمان سے، پھر اس کے ساتھ مل جل کر نکل آیا زمین کا سبزہ»

               فَاَصْبَحَ ہَشِیْمًا تَذْرُوْہُ الرِّیٰحُ: «پھر وہ ہو گیا چورا چورا، اڑائے پھرتی ہیں اسے ہوائیں۔»

               وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقْتَدِرًا: «اوراللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔»

            سبزے کے اُگنے، اس کے نشوونما پانے اور پھر خشک ہو کر خس و خاشاک کی شکل اختیار کر لینے کے عمل کو انسانی زندگی کی مشابہت کی بنا پر یہاں بیان کیا گیا ہے۔ بارش کے برستے ہی زمین سے طرح طرح کے نباتات نکل آتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمین سر سبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ جب یہ سبزہ اپنے جوبن پر ہوتا ہے تو بڑا خوش کن منظر پیش کرتا ہے۔ مگر پھر جلد ہی اس پر زردی چھانے لگتی ہے اور چند ہی دنوں میں لہلہاتا ہوا سبزہ خس و خاشاک کا ڈھیر بن جاتا ہے اور زمین پھر سے چٹیل میدان کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ سبزے یا کسی فصل کے اُگنے، بڑھنے اور خشک ہونے کا یہ دورانیہ چند ہفتوں پر محیط ہو یا چند مہینوں پر، اس کی اصل حقیقت اور کیفیت بس یہی ہے۔

            اس مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو بالکل یہی کیفیت انسانی زندگی کی بھی ہے۔ جس طرح نباتاتی زندگی کا آغاز آسمان سے بارش کے برسنے سے ہوتا ہے اسی طرح روح کے نزول سے انسانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ انسانی روح کا تعلق عالم امر سے ہے:    قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ:  (بنی اسرائیل: ۸۵)۔ شکم مادر میں جسد خاکی کے اندر روح پھونکی گئی، بچہ پیدا ہوا، خوشیاں منائی گئیں، جوان اور طاقت ور ہوا، تمام صلاحیتوں کو عروج ملا، پھر ادھیڑ عمر کو پہنچا، جسم اور اس کی صلاحیتیں روز بروز زوال پذیر ہونے لگیں، بالوں میں سفیدی آ گئی، چہرے پر جھریاں پڑ گئیں، موت وارد ہوئی، قبر میں اتارا گیا اور مٹی میں مل کر مٹی ہو گیا۔ اس cycle کا دورانیہ مختلف افراد کے ساتھ مختلف سہی مگر انسانی زندگی کے آغاز و انجام کی حقیقت بس یہی کچھ ہے۔ چنانچہ انسان کو یہ بات کسی وقت نہیں بھولنی چاہیے کہ دنیا کاعرصۂ حیات ایک وقفۂ امتحان ہے جسے ہر انسان اپنے اپنے انداز میں گزار رہا ہے۔ 

UP
X
<>