May 5, 2024

قرآن کریم > مريم >surah 19 ayat 41

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا 

اور اس کتاب میں ابراہیم کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ سچائی کے خوگر نبی تھے

 آیت ۴۱:  وَاذْکُرْ فِی الْْکِتٰبِ اِبْرٰہِیْمَ اِنَّہُ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا:   «اور تذکرہ کیجیے اس کتاب میں ابراہیم کا۔ یقینا وہ ِصدیق نبی تھے۔»

            صِدِّیقًا نَبِیًّا ایک نئی ترکیب ہے، جو قرآن حکیم میں یہاں پہلی مرتبہ آئی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم کو اور آیت: ۵۶ میں حضرت ادریس کو صِدِّیقاً نَبِیًّا فرمایا گیا ہے، جبکہ آیات: ۵۱ اور ۵۴ میں بالترتیب حضرت موسیٰ اور حضرت اسماعیل کو رَسُولاً نَّبِیًّا کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گویا یہ دو الگ الگ تراکیب ہیں اور ظاہر ہے کہ ہر ایک کا اپنا الگ مفہوم ہے۔ اگرچہ میرے علم کی حد تک ان الفاظ یا تراکیب کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی، بلکہ مجھے اس وقت سخت حیرت ہوئی جب میں نے ایک معروف عالم ِدین اور مفسر قرآن سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ یعنی کیا واقعی قرآن میں دو انبیاء کے بارے میں صِدِّیقًا نَبِیًّا اور دو کے بارے میں رَسُوْلًا نَّبِیًّا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں؟ وہ خود قرآن کی مکمل تفسیر لکھ چکے تھے مگر اس طرف ان کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔ بہر حال میں چاہتا ہوں کہ یہ نکتہ جس حد تک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر منکشف فرمایا ہے اس حد تک میں دوسروں تک پہنچا دوں۔

            ان دو تراکیب کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے تو سورۃ الفاتحہ کی یہ آیات مدنظر رکھیں جن میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں:  اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ:    «اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا»۔ اور پھر سورۃ النساء کی اس آیت پر غور کریں جس میں ان لوگوں کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے:  وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِینَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔ اس آیت میں ان لوگوں کے چار درجات بیان ہوئے ہیں جو مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان میں سب سے اوپر انبیاء کا درجہ ہے، پھر صدیقین کا، پھر شہداء کا اور نیچے base line پر صالحین ہیں، یعنی نیک دل، مخلص مسلمان جو صادق القول اور صادق الایمان ہیں۔ اگر نیچے سے اوپر کی طرف ارتقاء کے حوالے سے دیکھا جائے تو base line پر پہلا درجہ مؤمنین صالحین کا ہے۔ اگرکوئی اس درجہ سے ترقی کرے گا تو اس کے لیے درجہ شہادت ہے اور پھر اس سے اوپر درجہ صدیقیت۔ اس لحاظ سے درجہ صدیقیت گویا کسی بھی انسان کے لیے روحانی ترقی کے مدارج میں بلند ترین درجہ ہے، کیونکہ اس کے اوپر نبوت کا درجہ ہے، جو اکتسابی نہیں، سراسر وہبی ہے اور اب وہ دروازہ نوعِ انسانی کے لیے مستقل طور پر بند ہو چکا ہے۔

            ِصدیقین اور شہداء کے فرق کو سائیکالوجی کی دو جدید اصطلاحات کے ذریعے اس طرح سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف مزاج پر پیدا فرمایا ہے۔ مزاج اور رویے کے اعتبار سے جدید سائیکالوجی انسانوں کو بنیادی طور پر دو گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔ جو لوگ مجلس پسند ہوں، تنہائی سے گھبراتے ہوں، ہر وقت سیر سپاٹے کرنے، لوگوں سے ملنے جلنے اور خوش گپیوں میں خوش رہتے ہوں، انہیں بیروں بیں (exroverts) کہا جاتا ہے۔ ان کے برعکس تنہائی پسند، غور وفکر کرنے والے، اپنے خیالوں میں مگن رہنے اور محفلوں سے حتی المقدور اجتناب کرنے والے لوگ دروں بین (introverts) کہلاتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک تیسری کیفیت ان دو رویوں کے خوبصورت توازن سے پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسے لوگ جن کی شخصیات میں مذکورہ دونوں رویے توازن کے ساتھ موجود ہوں وہ ambiverts کہلاتے ہیں، لیکن ایسا شاذ ونادر ہی ہوتا ہے کہ ایک شخص میں دونوں رویے توازن کے ساتھ موجود ہوں۔ اس لیے ambiverts قسم کے لوگ عملاً بہت ہی کم ہوتے ہیں اور عمومی طور پر دنیا میں مزاج کے اعتبار سے مندرجہ بالا دو اقسام کے لوگ ہی پائے جاتے ہیں۔ دروں بین (introverts) قسم کے لوگ غور وفکر کی عادت کے باعث فطرت کے حقائق کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ کائنات کے بارے میں سوچ بچار کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی آفاقی آیات اُن سے ہم کلام ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں اہم حقائق ان پر منکشف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی فطرتِ سلیمہ اور عقل سلیم کی راہنمائی میں اللہ کو بھی پہچان لیتے ہیں، آخرت کی ضرورت اور حقیقت کو بھی سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھی جان جاتے ہیں کہ بندگی صرف اللہ ہی کی کرنی چاہیے۔ لیکن بندگی کا طریقہ کیا ہو؟ اس کا انہیں علم نہیں ہوتا۔ اس کے لیے وہ اللہ سے راہنمائی کی التجا کرتے ہیں:  اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ.  (الفاتحہ)۔ یہ لوگ دراصل صدیقین ہوتے ہیں اور ان کی شان یہ ہے کہ جونہی کوئی الہامی دعوت ان تک پہنچتی ہے وہ اسے اس انداز میں لپک کر قبول کرتے ہیں گویا مدت سے اسی کے منتظر بیٹھے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق کے قبولِ اسلام کا واقعہ اس حقیقت پر شاہد ہے۔ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ میں نے جس کے سامنے بھی ایمان کی دعوت پیش کی اس نے کچھ نہ کچھ توقف ضرور کیا، سوائے ابو بکر کے۔ یعنی آپ نے ایک لمحے کے لیے بھی توقف نہیں کیا اور دعوت پر ایسے لبیک کہا جیسے وہ اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔

            البتہ بیروں بین (extroverts) قسم کے لوگ چونکہ خود کو کھیل کود، سیرو شکار، میل ملاقات وغیرہ میں مصروف رکھتے ہیں، اس لیے اُن کا طبعی میلان غور وفکر کی طرف نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ کسی الہامی دعوت کو سمجھنے میں ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں، اور جب وہ کسی ایسے معاملے کی طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں تو اکثر جذباتی انداز میں ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ کسی نظریے یا دعوت کو قبول کر لیتے ہیں تو عام طور پر زیادہ متحرک اور فعال ثابت ہوتے ہیں اور یوں مسابقت میں بظاہر (introverts) سے آگے نکل جاتے ہیں۔ چنانچہ حضور کی دعوت کو حضرت ابو بکرصدیق نے جہاں ایک لمحے کے توقف کے بغیر قبول کر لیا وہاں حضرت عمراور حضرت حمزہ کو اس طرف متوجہ ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ حضرت عمر تو بنو عدی میں سے تھے اور آپ کی حضور کے ساتھ بظاہر زیادہ قربت نہیں تھی، مگر حضرت حمزہ تو آپ کے سگے چچا اور دودھ شریک تھے۔ وہ بچپن میں آپ کے ساتھ کھیلے تھے اور آپ سے بہت محبت بھی کرتے تھے، لیکن اس سب کچھ کے باوجود چھ سال تک آپ نے حضور کی دعوت کی طرف کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا اور جب ایمان لائے تو حادثاتی اور جذباتی اندازمیں لائے۔

            ایک روز شکار سے واپس آئے تو ابھی گھر میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے کہ لونڈی نے حضور سے ابوجہل کی گستاخی کے بارے میں خبر دی۔ بس یہ سنتے ہی آگ بگولا ہو گئے۔ گھر جانے کے بجائے سیدھے ابوجہل کے پاس پہنچے۔ جاتے ہی اس کے سر پر کمان دے ماری اور اسے للکارا کہ آج سے میں بھی ایمان لے آیا ہوں، تم میرا مقابلہ کر سکتے ہو تو آؤ میدان میں! ایسے ہی حضرت عمر بھی جذباتی انداز میں ایمان لائے۔ گھر سے محمدٌ رسول اللہ  کو (معاذ اللہ!) قتل کرنے کے ارادے سے نکلے۔ جذبات کی رو میں ہی بہن اور بہنوئی سے جا اُلجھے۔ بہن کی غیر معمولی استقامت دیکھی تو سوچنے پر مجبور ہوئے اور جب سنجیدگی سے غور کیا تو یک دم دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ پھر کیا تھا؟ وہی شمشیر برہنہ جو قتل کے ارادے سے لے کر نکلے تھے، گردن میں لٹکائے غلاموں کی طرح درِ نبوت پر حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔ بہر حال اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ دروں بین (introverts) قسم کے لوگ صدیقین اور بیروں بین (extroverts) مزاج کے افراد شہداء ہوتے ہیں۔

            انسانی مزاج کا یہ فرق انبیاء کی شخصیات میں بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ انبیاء کا مزاج صدیقین سے مناسبت رکھتا ہے اور کچھ کا شہداء سے۔ حضرت اسماعیل کے بارے میں روایات ہیں کہ آپ شکار کے بہت شوقین تھے اور اسی شوق میں کئی کئی دن گھر سے باہر رہتے تھے۔ حضرت ابراہیم دو مرتبہ آپ سے ملنے کے لیے گئے، مگر آپ کے گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے دونوں مرتبہ باپ بیٹے کی ملاقات نہ ہو سکی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ کا مزاج بھی جلالی تھا۔ آپ نے مصر میں ایک آدمی کو مکا رسید کیا تو اس کی جان ہی نکل گئی۔ انسانی مزاج کی اس تشریح کے اعتبار سے میرا خیال ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت ادریس کی شخصیات صدیقیت کے ساتھ مناسبت رکھتی تھیں، اس لیے وہ صدیق نبی قرار پائے، جبکہ حضرت اسماعیل اور حضرت موسیٰ کی شخصیات شہداء جیسی تھیں، چنانچہ وہ رسول نبی کہلائے۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ رسالت اور شہادت کے الفاظ کی آپس میں خصوصی مناسبت ہے۔ ہر رسول کو اپنی قوم کی طرف شاہد بنا کر بھیجا گیا۔ کارِ رسالت یعنی دعوت و تبلیغ اور اتمامِ حجت میں عمل کا پہلو غالب ہے۔ حضور کے بارے میں بھی سورۃ الاحزاب میں فرمایا گیا:  یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا: «اے نبی! بلاشبہ ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور خبردار کرنے والا»۔ اسی طرح سورۃ النساء میںبھی ہم پڑھ چکے ہیں:  فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا:    «پھر کیا حال ہو گا جب ہم لائیں گے ہر اُمت میں سے ایک گواہ اور (اے نبی!) آپ کو ہم لائیں گے ان پر گواہ»۔ اس ساری وضاحت کا لب لباب یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں شہداء کا مزاج رکھنے والے انبیاء کو رَسُولاً نَّبِیًّا اور صدیقیت کے مزاج کے حامل انبیاء کو صِدِّیقاً نَبِیًّا کے لقب سے یاد فرمایا گیا ہے۔ سورۃ الحدید کے مطالعے کے دوران اس کی آیت ۱۹:  اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّہَدَآءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ:    کے حوالے سے اس موضوع پر ان شاء اللہ مزید گفتگو ہو گی۔ 

UP
X
<>