May 5, 2024

قرآن کریم > مريم >surah 19 ayat 42

إِذْ قَالَ لأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا 

یاد کرو جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ : اباجان ! آپ ایسی چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں ، نہ دیکھتی ہیں ، اورنہ آپ کا کوئی کام کر سکتی ہیں؟

 آیت ۴۲:  اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا:   «یاد کیجئے جب ابراہیم نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! آپ کیوں بندگی کرتے ہیں ایسی چیزوں کی جو نہ سن سکتی ہیں اور نہ دیکھ سکتی ہیں اور نہ ہی آپ کے کچھ کام آ سکتی ہیں۔»

            اِن آیات کے حوالے سے یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم کا اپنے والد کو مخاطب کرنے کا انداز انتہائی مؤدبانہ ہے: یٰٓـــاَبَتِ، یٰٓـــاَبَتِ (اے میرے ابا جان! اے میرے ابا جان!)۔ ایک داعی اور مبلغ کے لیے یہ گویا ایک مثال ہے کہ اگر اسے دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں اپنے سے کسی بڑے یا کسی بزرگ کو مخاطب کرنا ہو تو اس کا طرزِ تخاطب کیسا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ قرآن مجید کا بہترین مقام ہے۔ 

UP
X
<>