May 2, 2024

قرآن کریم > مريم >surah 19 ayat 77

اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا

بھلا تم نے اُس شخص کو بھی دیکھا جس نے ہماری آیتوں کو ماننے سے انکار کیا ہے، اور یہ کہا ہے کہ : ’’ مجھے مال اور اولاد (آخرت میں بھی) ضرور ملیں گے۔‘‘

 آیت ۷۷:  اَفَرَأَیْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا:    «کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیات کا کفر کیا اور کہا کہ مجھے (آخرت میں بھی) مال اور اولاد سے لازماً نوازا جائے گا!»

            یہ بھی وہی مضمون ہے جو سورۃ الکہف کے پانچویں رکوع میں دو اشخاص کے مکالمے کے سلسلے میں گزر چکا ہے۔ وہاں بھی بالکل اسی سوچ کے حامل مالدار شخص کا ذکر ہے جس نے اللہ کے نیک بندے کو مخاطب کر کے کہا تھا:  وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً وَّلَئِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْہَا مُنْقَلَبًا:   کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ قیامت واقعی برپا ہو گی، لیکن بالفرض اگر ایسا ہوا بھی تو میں دنیا کی طرح وہاں بھی نوازا جاؤں گا، اور تم جو یہاں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہو وہاں بھی اسی حال میں رہو گے۔

            آیت زیر نظر میں یہی نظریہ قریش مکہ کے حوالے سے دہرایا گیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہم جو پر تعیش زندگی کے مزے لے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہم سے خوش ہے۔ چنانچہ ہمیں آخرت میں بھی اسی طرح سے کثرتِ مال و اولاد سے نوازا جائے گا۔ ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ وہ اسی دنیا میں آئندہ بھی کثرتِ مال و اولاد کی توقع لیے بیٹھے تھے، مگر مجھے ان مفسرین کی رائے سے اتفاق ہے جن کے نزدیک یہ ان کی آخرت کی توقع کا ذکر ہے۔ 

UP
X
<>