May 3, 2024

قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 11

إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ

یقین جانو کہ جو لوگ یہ جھوٹی تہمت گھڑ کر لائے ہیں ، وہ تمہارے اندر ہی کا ایک ٹولہ ہے۔ تم اس بات کو اپنے لئے برانہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لئے بہتر ہی بہتر ہے۔ ان لوگوں میں سے ہر ایک کے حصے میں اپنے کئے کا گناہ آیا ہے۔ اور ان میں سے جس شخص نے اس (بہتان) کا بڑا حصہ اپنے سر لیا ہے، اُس کیلئے تو زبردست عذاب ہے

 آیت ۱۱: اِنَّ الَّذِیْنَ جَآؤُوْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ: » جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں، یہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہے۔»

            لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّـکُمْ: «اسے تم اپنے لیے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے۔»

            یہ واقعہ گویا اللہ تعالیٰ کے بہت سے احکام اور قوانین کے نزول کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اسی کی وجہ سے امت کو شریعت کے اہم امور کی تعلیم دی جائے گی۔ اس واقعہ کا خلاصہ یوں ہے:

            ۶ ہجری میں رسول اللہ غزوه بنی مصطلق کے لیے تشریف لے گئے۔ اس سفر میں حضرت عائشہ آپ کے ہمراہ تھیں۔ آپ ایک الگ ہودج (کجاوہ) میں سفر کرتی تھیں۔ واپسی کے سفر کے دوران ایک جگہ جب قافلے کا پڑاؤ تھا آپ صبح منہ اندھیرے قضائے حاجت کے لیے گئیں۔ واپسی پر آپ کا ہار کہیں گر گیا اور اس کی تلاش میں آپ کو اتنی دیر ہو گئی کہ قافلے کے کوچ کا وقت ہو گیا۔ جن لوگوں کو آپ کا ہودج اونٹ پر باندھنے اور اتارنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی انہوں نے ہودج اٹھا کر اونٹ پر باندھ دیا۔ آپ چونکہ بہت دُبلی پتلی تھیں اور آپ سمیت ہودج کا وزن بہت زیادہ نہیں ہوتا تھا، اس لیے اٹھاتے ہوئے وہ لوگ یہ اندازہ نہ کرسکے کہ ہودج خالی ہے اور آپ اس میں موجود نہیں ہیں۔ بہر حال جب آپ پڑاؤ کی جگہ پر واپس آئیں تو قافلہ کوچ کر چکا تھا۔ واپس آ کر آپ نے سوچا ہو گا کہ اگر پیدل قافلے کے پیچھے جانے کی کوشش کروں گی تو نہ جانے رات کے اندھیرے میں راستہ بھٹک کر کس طرف چلی جاؤں۔ اس لیے بہتر ہے کہ اسی جگہ پر بیٹھی رہوں، تا وقتیکہ لوگوں کو میرے بارے میں پتا چلے کہ میں ہودج میں نہیں ہوں اور وہ مجھے تلاش کرتے ہوئے واپس اس جگہ پہنچ جائیں۔ چنانچہ آپ وہیں بیٹھ گئیں۔ بیٹھے بیٹھے آپ کو نیند آ گئی اور آپ وہیں زمین پر سو گئیں۔

            اس زمانے میں عام طور پر سفر کے دوران ایک شخص قافلے کے پیچھے پیچھے سفر کرتا تھا تا کہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے اگر کوئی ساتھی پیچھے رہ گیا ہو تو اس کی مدد کرے یا قافلے کی کوئی گری پڑی چیز اٹھا لے۔ اس سفر کے دوران اس ذمہ داری پر حضرت صفوان بن معطل مامور تھے۔ وہ اجالے کے وقت قافلے کے پڑاؤ کی جگہ پر پہنچے تو دور سے انہیں ایک گٹھڑی سی پڑی دکھائی دی۔ قریب آئے تو اُم المؤمنین کو زمین پر پڑے پایا۔ نیند کے دوران آپ کا چہرہ کھل گیا تھا اور حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے چونکہ انہوں نے آپ کو دیکھا تھا اس لیے پہچان گئے۔ (حجاب کا حکم سورۃ الاحزاب میں ہے جو ایک سال پہلے ۵ ہجری میں نازل ہو چکی تھی۔ اس سے پہلے خواتین حجاب نہیں کرتی تھیں۔) حضرت صفوان نے آپ کو دیکھ کر اونچی آواز میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھا۔ یہ سن کر آپ کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے آپ کے سامنے اپنا اونٹ بٹھا دیا۔ آپ خاموشی سے سوار ہو گئیں اور وہ نکیل پکڑے آگے آگے چلتے رہے۔ جب وہ آپ کو لے کر قافلے میں پہنچے تو عبداللہ بن اُبی نے اپنے خبث ِباطن کا اظہار کرتے ہوئے شور مچا دیا کہ خدا کی قسم، تمہارے نبی کی بیوی بچ کر نہیں آئی! (معاذ اللہ!) باقی منافقین نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور یوں یہ بے سروپا بات بڑھتے بڑھتے ایک طوفان کا روپ دھار گئی۔ منافقین کی اس سازش سے بعض بہت ہی مخلص مسلمان بھی متأثر ہو گئے، جن میں حضرت حسان بن ثابت (دربارِ نبوی کے شاعر) بھی تھے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ کی براءت میں یہ آیات نازل فرما کر آپ کی پاکدامنی اور پاکبازی پر گواہی دی تو تب جا کر یہ معاملہ ختم ہوا۔ یہ واقعہ تاریخ اسلام میں ٔ«واقعہ اِفک» کے نام سے مشہور ہے۔

            لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ: «ان میں سے ہر شخص کے لیے وہی ہے جو گناہ اُس نے کمایا۔»

            جس کسی کا جتنا حصہ اس طوفان کے اٹھانے میں ہے اس کو اسی قدر اس کا بدلہ ملے گا۔

            وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیْمٌ:  «اور ان میں سے جس نے اس کا بڑا بوجھ اپنے سر لیا اس کے لیے تو بہت بڑا عذاب ہے۔»

            اس سے مراد عبد اللہ بن ابی ہے، جو اس بہتان کے باندھنے اور اس کی تشہیر کرنے میں پیش پیش تھا۔ 

UP
X
<>