May 7, 2024

قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 31

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاء وَلا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ 

اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، اور اپنی سجاوٹ کو کسی پر ظاہر نہ کریں ، سوائے اُس کے جو خود ہی ظاہر ہو جائے، اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں ، اور اپنی سجاوٹ اور کسی پر ظاہر نہ کریں ، سوائے اپنے شوہروں کے، یا اپنے باپ، یا اپنے شوہروں کے باپ کے، یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیون کے بیٹوں ، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے، یا اپنی عورتوں کے، یا اُن کے جو اپنے ہاتھوں کی ملکیت میں ہیں ، یا اُن خدمت گذاروں کے جن کے دل میں کوئی (جنسی) تقاضا نہیں ہوتا، یا اُن بچوں کے جو ابھی عورتوں کے چھپے ہوئے حصوں سے آشنا نہیں ہوئے۔ اور مسلمان عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ انہوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے، وہ معلوم ہوجائے۔ اور اے مومنو ! تم سب اﷲ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو 

 آیت ۳۱: وَقُلْ لِّلْمُؤمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ: «اور مؤمن عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں »

            : وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا: «اور وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں، سوائے اس کے جو اس میں سے از خود ظاہر ہو جائے»

            : وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ: «اور چاہیے کہ وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکل مار لیا کریں »

            اپنے معمول کے لباس کے اوپر وہ اپنی اوڑھنیوں کو اس طرح لپیٹے رکھیں کہ ان کے گریبان اور سینے ڈھکے رہیں۔ خُمُر جمع ہے، اس کا واحد خِمارہے اور اس کے معنی اوڑھنی (دوپٹہ) کے ہیں۔ سورۃ الاحزاب، آیت: ۵۹ میں خواتین کے لباس کے حوالے سے جَلابِیب کا لفظ آیا ہے جس کی واحد جِلباب ہے۔ ہمارے ہاں «جلباب» کا مترادف لفظ چادر ہے۔ چنانچہ یوں سمجھئے کہ دوپٹہ اور چادر دونوں ہی عورت کے لباس کا لازمی حصہ ہیں۔ عرب تمدن میں اسلام سے پہلے اگرچہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ رائج نہیں تھا مگر چادر اور اوڑھنی اس دور میں بھی عورت کے لباس کا لازمی حصہ تھیں۔ اوڑھنی وہ ہر وقت اوڑھے رہتی تھی (گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی) جبکہ گھر سے باہر نکلنا ہوتا تو چادر اوڑھ کر نکلتی تھی۔ البتہ وہ اوڑھنی اس انداز سے لیتی تھیں کہ گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ اس آیت میں حکم دیا گیا کہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکل مار لیا کریں تاکہ ان کے گریبان اور سینے اچھی طرح ڈھکے رہیں۔ زمانہ قبل از اسلام میں عربوں کے ہاں چادر نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے لباس کا بھی لازمی حصہ تھی۔ چادر مرد کی عزت کی علامت سمجھی جاتی اور چادر کے معیار سے کسی شخص کے مقام و مرتبے کا تعین بھی ہوتا تھا۔ معمولی چادر والے شخص کو ایک عام آدمی جبکہ قیمتی دوشالہ اوڑھنے والے کو معزز اور اہم آدمی سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح کسی کے کاندھے سے اس کی چادر کا کھینچنا یا گھسیٹنا اس کو بے عزت و بے توقیر کرنے کی علامت تھی۔ چادر کا یہی تصور اس حدیث قدسی میں بھی ملتا ہے جس میں حضور نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے: ((اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَائِیْ))  «تکبر میری چادر ہے»۔ یعنی جو شخص تکبر کرتا ہے وہ گویا میری چادر گھسیٹ رہا ہے۔

            : وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ: «اور وہ نہ ظاہر کریں اپنی زینت کو»

            آگے اس حکم سے استثناء کے طور پر مردوں کی ایک طویل فہرست دی جا رہی ہے جن کے سامنے عورت بغیر حجاب، کھلے چہرے کے ساتھ آ سکتی ہے۔ مقامِ غور ہے کہ اگر عورت کے چہرے کا پردہ لازمی نہیں ہے تو محرم مَردوں کی یہ طویل فہرست بیان فرمانا (معاذ اللہ!) کیا ایک بے مقصد مشق (excercise in futility) ہے؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت میں عورت کے چہرے کا پردہ لازمی ہے اور اس حکم سے جن مردوں کو استثناء حاصل ہے وہ یہ ہیں :

            اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآهنَّ: «(وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں کسی پر) سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپوں کے»

            باپ کے مفہوم میں چچا، ماموں، دادا اور نانا بھی شامل ہیں۔

            : اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآهنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ: «یا اپنے شوہروں کے باپوں کے، یا اپنے بیٹوں کے، یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے»

            یعنی شوہر کا وہ بیٹا جو اس کی دوسری بیوی سے ہے وہ بھی نا محرم نہیں ہے۔

            : اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ: «یا اپنے بھائیوں کے، یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں) کے، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں) کے»

            : اَوْ نِسَآءِهنَّ: «یا اپنی (جان پہچان کی) عورتوں کے»

یعنی عام عورتیں بھی نا محرم تصور کی جائیں گی۔ البتہ اپنے میل جول اور جان پہچان کی عورتیں اس استثنائی فہرست میں شامل ہیں۔

            : اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ: «یا اُن کے جن کے مالک ہیں ان کے داہنے ہاتھ»

یعنی غلام اور لونڈیاں۔ لیکن اکثر اہل سنت علماء کے نزدیک یہ حکم صرف لونڈیوں کے لیے ہے اور غلام اس میں شامل نہیں ہیں۔

            : اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ: «یا ایسے زیردست مردوں کے جو اس طرح کی غرض نہیں رکھتے»

            یعنی ایسے زیردست لوگ جو صرف خدمت گار ہوں اور اپنی عمر یا زیردستی و محکومی کی بنا پر خواتین خانہ کے متعلق کوئی بری نیت دل میں نہ لا سکیں۔ اس شرط پر پورا اترنے والے مرد بھی اس استثنائی فہرست میں شمار ہوں گے۔ مثلاً ایسے خاندانی ملازمین جو کئی پشتوں سے گھریلو خدمت پر مامور ہوں۔ پہلے باپ ملازم تھا، پھر اس کا بیٹا بھی اسی گھر میں پلا بڑھا اور بچپن سے ہی گھر کی خواتین کی خدمت میں رہا۔ ایسے لڑکے یا مرد سے یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ وہ گھر کی خواتین کے بارے میں برا خیال ذہن میں لائے۔

            : اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ: «یا اُن لڑکوں کے جو عورتوں کے مخفی معاملات سے ابھی نا واقف ہیں »

            یعنی وہ نا بالغ لڑکے جن میں عورتوں کے لیے فطری رغبت ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ یہ ان محرم لوگوں کی فہرست ہے جن کے سامنے عورت بغیر حجاب کے آ سکتی ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں مزید ذہن نشین کر لیجیے:

            پہلی یہ کہ اس آیت میں اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا (سوائے اس کے جو اس میں سے از خود ظاہر ہو جائے) کے الفاظ سے بعض لوگ چہرہ مراد لیتے ہیں، جو بالبداہت بالکل غلط ہے۔ سورۃ الاحزاب میں وارد احکامِ حجاب اور احادیث نبویہ کی رو سے عورت کے لیے چہرے کا پردہ لازمی ہے۔ عہد ِنبوی میں حکم حجاب آ جانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں۔ میرے نزدیک ان قرآنی الفاظ سے مراد نسوانی جسم کی ساخت یا اس کی ایسی کوئی کیفیت ہے جسے عورت چھپانا چاہے بھی تو نہیں چھپا سکتی۔ مثلاً کسی خاتون نے برقعہ پہن رکھا ہے، چہرے کے پردے کا اہتمام بھی کیا ہے مگر اس کے لمبے قد کی کشش یا متناسب جسم کی خوبصورتی اس سب کچھ کے باوجود بھی اپنی جگہ موجود ہے، جو بہرحال چھپائے نہیں چھپ سکتی۔

            دوسری اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ محرموں کے سامنے عورت کو صرف چہرے کے پردے کے بغیر آنے کی اجازت ہے۔ ستر کے کسی حصے کو ان کے سامنے بھی کھولنے کی اسے اجازت نہیں (اس میں صرف اس کے خاوند کو استثناء حاصل ہے)۔ واضح رہے کہ عورت کے چہرے، پہنچوں سے نیچے ہاتھوں اور ٹخنوں سے نیچے پیروں کے سوا اس کا تمام جسم اس کے ستر میں شامل ہے۔ چنانچہ کسی عورت کو کھلے بالوں کے ساتھ یا مذکورہ تین اعضاء کے علاوہ جسم کے کسی حصے کو کھلا چھوڑ کر اپنے والد، بھائی یا بیٹے کے سامنے بھی آنے کی اجازت نہیں۔

            : وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ: «اور وہ اپنے پاؤں زمین پر مار کر نہ چلیں کہ ان کی اس زینت میں سے کچھ ظاہر ہو جائے جسے وہ چھپاتی ہیں۔»

            عورت کی چال ایسی نہ ہو جس کی وجہ سے چادر یا برقعے کے باوجود اس کے بناؤ سنگھار، زیورات وغیرہ میں سے کسی قسم کی زینت کے اظہار کا امکان ہو۔

            : وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ: «اور اے اہلِ ایمان! تم سب کے سب مل کر اللہ کی جناب میں توبہ کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔» 

UP
X
<>