May 7, 2024

قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 32

وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَائِـكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهِ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ

تم میں سے جن (مردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، اُن کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں ، اُن کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اﷲ اپنے فضل سے اُنہیں بے نیاز کردے گا۔ اور اﷲ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے

 آیت ۳۲: وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ: «اور نکاح کر دیا کرو بیواؤں کا اپنے میں سے»

            یہ بہت اہم حکم ہے۔ خصوصی طور پر ہمارے اس معاشرے کے لیے اس میں بہت بڑی راہنمائی ہے جہاں ہندوانہ رسم و رواج کے اثرات کے باعث بیوہ کا نکاح کرنا معیوب اور نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ خوشی سے کوئی شخص بھی نکاح نہیں کرنا چاہتا۔

            : وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآئِکُمْ: «اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو ذی صلاحیت ہوں»

            تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو سمجھ دار ہوں اور ان کے کردار کے بارے میں بھی تمہیں اعتماد ہو ان کے آپس میں نکاح کر دیا کرو۔ غلاموں اور کنیزوں کے نکاح ان کے آقاؤں کی اجازت سے ہوں گے اور جب کسی کنیز کا نکاح ہو جائے گا تو پھر اس کے آقا کو اُس کے ساتھ تمتع کی اجازت نہیں ہو گی۔

            اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہِ: «اگر وہ تنگ دست ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔»

            چنانچہ یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان میں مہر وغیرہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں تو نکاح کیونکر کریں !

            : وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ: «اور اللہ بہت وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔»

            وہ بہت کشادگی والا ہے اور اپنے بندوں کے احوال واقعی سے بخوبی واقف بھی ہے۔ اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ کوئی انسان اپنی تنگ دستی کو اپنے نکاح کے راستے کی رکاوٹ نہ سمجھے۔ اسے امید رکھنی چاہیے کہ اس کی بیوی اپنی قسمت اور اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آئے گی اور یہ کہ نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے اس کے لیے رزق کا کوئی نیا دروازہ کھول دے گا۔ 

UP
X
<>