May 8, 2024

قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 35

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لاَّ شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاء وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ 

اﷲ تمام آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اُس کے نور کی مثال کچھ یوں ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہو، چراغ ایک شیشے میں ہو۔ شیشہ ایسا ہو جیسے ایک ستارا، موتی کی طرح چمکتا ہوا ! وہ چراغ ایسے برکت والے درخت یعنی زیتون سے روشن کیا جائے جو نہ (صرف) مشرقی ہو نہ (صرف) مغربی، ایسا لگتا ہو کہ اُس کا تیل خود ہی روشنی دیدے گا، چاہے اُسے آگ بھی نہ لگے۔ نور بالائے نور ! اﷲ اپنے نور تک جسے چاہتا ہے، پہنچا دیتا ہے، اور اﷲ لوگوں کے فائدے کیلئے تمثیلیں بیان کرتا ہے، اور اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے

            یہ اس سورت کا پانچواں رکوع ہے جو اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے دوسرے حصے میں ایمان کی بحث کے ضمن میں ایک اہم درس (درس ۷) اس رکوع پر مشتمل ہے۔ اس رکوع کی پہلی آیت ( آیت: ۳۵) قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں سے ہے۔ سورۃ الاحزاب اور سورۃ النور کا آپس میں جوڑا ہونے کا تعلق ہے۔ ان دونوں سورتوں کے درمیان بہت سی دوسری مناسبتوں اور مشابہتوں کے علاوہ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سورۃ الاحزاب کی آیت: ۳۵ بھی اسی موضوع پر ہے، یعنی ایمان اور اسلام کی کیفیات کے حوالے سے یہ دونوں آیات قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں سے ہیں۔

            اس رکوع میں ایمان کے حوالے سے انسانوں کی تین اقسام زیر بحث آئی ہیں۔ اس سے پہلے سورۃ البقرۃ کے آغاز میں بھی دعوتِ حق کے ردِ عمل کے حوالے سے تین قسم کے انسانوں کا ذکر ہو چکا ہے۔ دراصل دین کی دعوت اور اسلامی تحریک کے جواب میں کسی بھی معاشرے کے اندر عام طور پر تین طرح کا رد عمل سامنے آتا ہے۔ کچھ لوگ تو نتائج و عواقب سے بے پروا ہو کر اس دعوت پر دل و جان سے لبیک کہتے ہیں اور پھر اپنے عمل سے اپنے ایمان اور دعویٰ کی سچائی ثابت بھی کر دکھاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کچھ لوگ دوسری انتہا پر ہوتے ہیں۔ وہ تعصب،حسد، ضد اور تکبر کی وجہ سے انکار اور مخالفت پر کمر کس لیتے ہیں اور آخر دم تک اس پر ڈٹے رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ معاشرے میں ایک تیسری قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ پورے یقین اور خلوص کے ساتھ اس دعوت کو قبول بھی نہیں کرتے اورکچھ دُنیوی مفادات اور متفرق وجوہات کے پیش نظر مکمل طور پر اسے رد بھی نہیں کرتے۔ جب حالات کچھ ساز گار ہوں تو اہل حق کا ساتھ دینے کے لیے تیار بھی ہو جاتے ہیں، لیکن جونہی کوئی آزمائش آتی ہے یا قربانی کا تقاضا سامنے آتا ہے تو فوراً اپنی راہ الگ کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دلی کیفیات اور کردار کا نقشہ سورۃ الحج کی آیت: ۱۱ میں یوں کھینچا گیا ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍج فَاِنْ اَصَابَہُ خَیْرُ نِاطْمَاَنَّ بِہِ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ  انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہِ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ: «اور لوگوں میں سے کوئی وہ بھی ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے کنارے پر رہ کر، تو اگر اسے کوئی فائدہ پہنچے تو اس کے ساتھ مطمئن رہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آ جائے تو منہ کے بل الٹا پھر جائے۔ یہ خسارہ ہے دنیا اور آخرت کا، یہ بہت ہی بڑی تباہی ہے۔»

             زیر مطالعہ آیات میں ایک دوسرے زاویے سے معاشرے کے تین کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں پہلی قسم ایسے سلیم الفطرت انسانوں کی ہے جن کے دلوں میں اللہ کی معرفت فطری طور پر پائی جاتی ہے۔ پھر جب وحی کے پیغام تک ان کی رسائی ہوتی ہے تو وہ اس کے فیوض و برکات سے بھی بہترین انداز میں مستفیض ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ان کا باطن ایمانِ حقیقی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اس کیفیت کو یہاں «نورٌ علٰی نُور» سے تعبیر کیا گیا ہے۔ دوسری انتہا پر وہ لوگ ہیں جن کے دل نورِ ایمان سے محروم ہیں۔ وہ خالص دنیا پرست انسان ہیں جن کے دامن جھوٹ موٹ کی نیکیوں سے بھی خالی ہیں۔ ان کے دلوں میں زندگی بھر نفسانی خواہشات کے علاوہ کسی اور خیال اور جذبے کا گزر تک نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی اس کیفیت کا نقشہ «ظُلُمٰتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ» کے الفاظ میں کھینچا گیا ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک تیسرا کردار بھی ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔ اس کردار کے حامل وہ لوگ ہیں جن کے دل اگرچہ حقیقی ایمان سے محروم ہیں، لیکن وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے یا دُنیوی اغراض و مقاصد کے لیے نیکی کے کام بھی کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نیک اعمال کو یہاں سراب سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

 آیت ۳۵: اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: «اللہ نُور ہے آسمانوں اور زمین کا۔»

            : مَثَلُ نُوْرِہِ کَمِشْکٰوۃٍ: «اُس کے نور کی مثال ایسے ہے جیسے ایک طاق»

            نور سے مراد یہاں نورِ ایمان ہے، یعنی اللہ پر ایمان کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے:

            : فِیْہَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ: «اس (طاق) میں ایک روشن چراغ ہے، وہ چراغ شیشے (کے فانوس) میں ہے۔»

            وہ چراغ شیشے کے فانوس میں رکھا گیا ہے، جیسے پچھلے زمانے میں شیشے کی چمنیوں میں چراغ رکھے جاتے تھے۔

            اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ: «اور وہ شیشہ ایک چمکدار ستارے کی مانند ہے»

            اس مثال میں انسانی سینے کو طاق اور دل کو چراغ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ انسانی پسلیوں کا ڈھانچہ، جسے ہم سینہ کہتے ہیں، یہ نیچے سے چوڑا اور اوپر سے تنگ ہونے کی وجہ سے پرانے زمانے کے طاق سے مشابہت رکھتا ہے۔ ڈایا فرام (diaphragm) جو نچلے دھڑ کے اندرونی حصے (abdominal cavity) کو سینے کے اندرونی حصے(chest cavity) سے علیحدہ کرتا ہے اس طاق کا گویا فرش ہے جس کے اوپر یہ چراغ یعنی دل رکھا گیا ہے۔ یہ دل ایک بندۂ مؤمن کا دل ہے جو نورِ ایمان سے جگمگا رہا ہے۔ یہ نور ایمان مجموعہ ہے نورِ فطرت (جو اس کی روح کے اندر پہلے سے موجود تھا) اور نورِوحی کا۔

            : یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ: «وہ (چراغ) جلایا جاتا ہے زیتون کے ایک مبارک درخت سے، جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی»

            کسی درخت پر جس سمت سے دھوپ پڑتی ہو، اسی سمت کے حوالے سے وہ شرقی یا غربی کہلاتا ہے۔ اگر کوئی درخت کسی اوٹ میں ہو یا درختوں کے جھنڈ کے اندر ہو تو اس پر صرف ایک سمت سے ہی دھوپ پڑ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے ایسا درخت یا شرقی ہو گا یا غربی۔ لیکن یہاں ایک مثالی درخت کی مثال دی جا رہی ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ وہ نہ تو کسی اوٹ میں ہے اور نہ ہی درختوں کے جھنڈ میں، بلکہ وہ کھلے میدان میں بالکل یکہ و تنہا کھڑا ہے اورپورے دن کی دھوپ مسلسل اس پر پڑتی ہے۔ اس مضمون کی اہمیت یہ ہے کہ زیتون کا وہ درخت جس پر زیادہ سے زیادہ دھوپ پڑتی ہو اور مشرق و مغرب دونوں سمتوں سے پڑتی ہو، اس کے پھلوں کا روغن بہت صاف، شفاف اور اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔

            : یَّکَادُ زَیْتُہَا یُضِیْٓ ُٔ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ: «قریب ہے کہ اُس کا روغن (خود بخود) روشن ہو جائے، چاہے اسے آگ نے ابھی چھوا بھی نہ ہو۔»

            گویا وہ آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑک اٹھنے کے لیے تیار ہے۔

            : نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ: «روشنی پر روشنی!»

            یعنی جب اسے آگ دکھائی جائے تو وہ بھڑک اٹھتا ہے اور نورٌ علیٰ نور کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

            یہ خوبصورت مثال ایمان کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں ہے اور میں نے مختلف مواقع پر اس مثال کی وضاحت بہت تفصیل سے کی ہے۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ فطرت ِانسانی کے اندر اللہ تعالیٰ کی معرفت یا اس پر ایمان کی کیفیت پیدائشی طور پر موجود ہے، مگر دنیا میں رہتے ہوئے یہ معرفت ماحول اور حالات کے منفی اثرات کے باعث عام طور پر غفلت اور مادیت کے پردوں میں چھپ کر شعور سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگ اس حد تک سلیم الفطرت ہوتے ہیں کہ اُن کے اندر معرفت ِخداوندی خارجی حالات کے تمام تر منفی اثرات کے باوجود بھی مسلسل اجاگر اور فعال رہتی ہے۔

            فطری معرفت کی اس روشنی کے بعد انسانی ہدایت کا دوسرا بڑا ذریعہ یا منبع وحی الٰہی ہے۔ وحی کے ذریعہ حاصل ہونے والی ہدایت بنیادی طور پر انسانی فطرت کے اندر پہلے سے موجود غیر فعال اور خوابیدہ (dormant) ایمان اور معرفت ِخداوندی کو بیدار اور فعال(activate) کرنے میں مدد دیتی ہے۔ چنانچہ جب وحی کا پیغام لوگوں تک پہنچتا ہے تو اس پر ہر انسان کا ردِ عمل اس کی فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان کی فطرت میں تکدر ہے تو وہ وحی کے اس پیغام کی طرف فوری طور پر متوجہ نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کی فطرت کی کثافت کو دور کرنے اور اس کے اندر فطری طور پر موجود معرفتِ خداوندی کو غفلت کے پردوں سے نکال کر شعور کی سطح پر لانے کے لیے وقت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف ایک سلیم الفطرت انسان وحی کے پیغام کو پہچاننے میں ذرہ بھر تأمل و تاخیر نہیں کرتا۔ فطری معرفت اس کے اندر چونکہ پہلے سے شعوری سطح پر موجود ہوتی ہے اس لیے نورِ وحی جونہی اس کے سامنے آتا ہے اس کے دل کا آئینہ جگمگا اٹھتا ہے اور وہ فوراً اس پیغام کی تصدیق کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ پیغامِ وحی کی فوری تصدیق کی وجہ سے ِ«صدیقین» کہلاتے ہیں۔ اس حوالے سے نبی مکرم کا یہ فرمان بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ: «میں نے جس کسی کو بھی ایمان کی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ توقف یا تردّد ضرور کیا، سوائے ابوبکر کے، جنہوں نے ایک لمحے کا بھی توقف نہیں کیا»۔ سورۃ التوبہ کی آیت: ۱۰۰ میں جن خوش نصیب لوگوں کو:  وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ. کا خطاب ملا، یہ وہی لوگ تھے جن کی فطرت کے آئینے غیر معمولی طور پر شفاف تھے۔ دوسری طرف اسی ماحول میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کی فطرت کے تکدر کو دور کرنے کے لیے اضافی وقت اور محنت کی ضرورت پڑی۔ ایسے لوگ بعد میں اپنی اپنی طبیعت کی کیفیت اور استطاعت کے مطابق «سابقون الاولون» کی پیروی کرنے والوں کی صف میں شامل ہوتے رہے۔ ان لوگوں کا ذکر اسی آیت میں: وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ. کے الفاظ میں ہوا ہے۔

            آیت زیر مطالعہ میں دی گئی مثال کو سمجھنے کے لیے تیل کی مختلف اقسام کے فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ پرانے زمانے میں تیل کے دیے جلائے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ان میں سرسوں کا تیل جلایا جاتا تھا۔ یہ تیل زیادہ کثیف ہونے کی وجہ سے دیا سلائی دکھانے پر بھی آگ نہیں پکڑ سکتا۔ چنانچہ اسے کپڑے یا روئی کے فتیلے (بتی) کی مدد سے جلایا جاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں پٹرول بھی ایک تیل ہے جو جلنے کے لیے ہر وقت بیتاب رہتا ہے اور چھوٹی سی چنگاری بھی اگر اس کے قریب آجائے تو بھڑک اٹھتا ہے۔ جلنے کے اعتبار سے جس طرح کڑوے تیل اور پٹرول میں فرق ہے اسی نوعیت کا فرق انسانی طبائع میں بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ مذکورہ مثال میں اعلیٰ قسم کے زیتون سے حاصل شدہ انتہائی شفاف تیل گویا ِ«صدیقین» کی فطرتِ سلیم ہے جو وحی الٰہی کے نور سے مستفیض ہونے اور «نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ» کی کیفیت کو پانے کے لیے ہر وقت بے تاب و بے چین رہتی ہے۔ گویا انسانی روح ایک نورانی یا ملکوتی چیز ہے۔ اس ملکوتی روح سے جب وحی یا قرآن کے نور کا اتصال ہوتا ہے تو نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اسی کیفیت سے نورِ ایمان وجود میں آتا ہے، جس سے بندۂ مؤمن کا دل منور ہوتا ہے۔

            : یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہِ مَنْ یَّشَآءُ: «اللہ ہدایت دیتا ہے اپنے نور کی جس کو چاہتا ہے۔»

            : وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ  وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ : «اور اللہ یہ مثالیں بیان کرتا ہے لوگوں (کی راہنمائی) کے لیے، جبکہ اللہ تو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔»

            یہ مثال لوگوں کو سمجھانے کے لیے بیان کی گئی ہے، کیونکہ انسانی ذہن ایسے لطیف حقائق کو براہِ راست نہیں سمجھ سکتا---- اب آئندہ آیات میں ان لوگوں کے کردار و عمل کی جھلک دکھائی جا رہی ہے جن کے دل نورِ ایمان سے منور ہوتے ہیں۔ 

UP
X
<>