May 7, 2024

قرآن کریم > النّور >surah 24 ayat 39

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاء حَتَّى إِذَا جَاءهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

اور (دوسری طرف) جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، اُن کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹیل صحرا میں ایک سراب ہو جسے پیاسا آدمی پانی سمجھ بیٹھتا ہے، یہاں تک کہ جب اُس کے پاس پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا، اور اُس کے پاس اﷲ کو پاتا ہے، چنانچہ اﷲ اُس کا پوراپورا حساب چکا دیتا ہے۔ اور اﷲ بہت جلدی حساب لے لیتا ہے

            اب ملاحظہ کیجیے ایمانِ حقیقی کے بغیر انجام دیے گئے نیک اعمال کی مثال:

 آیت ۳۹: وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآءً: «اور جو کافر ہیں ان کے اعمال ایسے ہیں جیسے سراب کسی چٹیل میدان میں، پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے۔»

            : حَتّٰیٓ اِذَا جَآءَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہُ فَوَفّٰـہُ حِسَابَہُ: «یہاں تک کہ وہ جب اس کے پاس آیا تو اُس نے وہاں کچھ نہ پایا، البتہ اس نے اس کے پاس اللہ کو پایا، تو اس نے پورا پورا چکا دیا اسے اس کا حساب۔»

            : وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ: «اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔»

            یعنی اگر کسی شخص کا دل حقیقی ایمان سے محروم ہے تو خدمت خلق کے میدان میں اس کے کارناموں اوردوسرے نیک کاموں کی اللہ کے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔ ایسی نیکیاں تو گویا سراب (دھوکہ) ہیں۔ جیسے صحرا میں ایک پیاسا شخص سراب (چمکتی ہوئی ریت) کو پانی سمجھتا ہے اسی طرح یہ لوگ بھی اپنے اعمال کو نیکیوں کا ڈھیرسمجھتے ہیں، لیکن روزِ حساب ان پر اچانک یہ حقیقت کھلے گی کہ ان کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں شرفِ قبولیت نہیں پا سکا۔ سورۂ ابراہیم کی آیت: ۱۸ میں ایسے لوگوں کے اعمال کو راکھ کے اس ڈھیر سے تشبیہہ دی گئی ہے جو تیز آندھی کی زد میں ہو۔

            اس سلسلے کی دوسری مثال ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کی زندگیاں ایسی جھوٹ موٹ کی نیکیوں سے بھی خالی ہیں اور ان کے باطن سرا سر شہواتِ نفس اور دُنیا پرستی کی گندگی سے بھرے پڑے ہیں : 

UP
X
<>