May 7, 2024

قرآن کریم > الفرقان >sorah 25 ayat 40

وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا بَلْ كَانُوا لا يَرْجُونَ نُشُورًا

اور یہ (کفار مکہ) اُس بستی سے ہو کر گذرتے رہے ہیں جس پر بری طرح (پتھروں کی) بارش برسائی گئی تھی۔ بھلا کیا یہ اُس بستی کو دیکھتے نہیں رہے؟ (پھر بھی انہیں عبرت نہیں ہوئی) بلکہ ان کے دل میں دوسری زندگی کا اندیشہ تک پیدا نہیں ہوا

آیت ۴۰   وَلَقَدْ اَتَوْا عَلَی الْقَرْیَۃِ الَّتِیْٓ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ: ’’اور یہ لوگ اُس بستی پر سے تو گزرتے ہیں جس پر بہت بری بارش برسائی گئی تھی۔‘‘

      اس سے سدوم اور عامورہ کی بستیاں مراد ہیں جن کی طرف حضرت لوط مبعوث ہوئے تھے۔ بدترین بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے، جس کا ذکر قرآن حکیم میں کئی جگہ آیا ہے۔

      اَفَلَمْ یَکُوْنُوْا یَرَوْنَہَا: ’’تو کیا یہ لوگ اسے دیکھتے نہیں رہے؟‘‘

      سفر شام کے دوران آتے جاتے قریش کے تجارتی قافلے جب ان بستیوں کے کھنڈرات کے پاس سے گزرتے ہیں توکیا یہ لوگ انہیں نگاہِ عبرت سے نہیں دیکھتے؟

      بَلْ کَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا: ’’بلکہ وہ امید نہیں رکھتے جی اٹھنے کی! ‘‘

      اصل بات یہ ہے کہ انہیں بعث بعد الموت پر یقین نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایسے عبرت انگیز حقائق پرسے یہ لوگ بغیر کوئی سبق حاصل کیے اندھوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔

UP
X
<>