May 3, 2024

قرآن کریم > الفرقان >sorah 25 ayat 43

أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلاً

بھلا بتلاؤ جس شخص نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنالیا ہو، تو (اے پیغمبر !) کیا تم اُس کی ذمہ داری لے سکتے ہو؟

آیت ۴۳   اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ہَوٰہُ: ’’کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟‘‘

      یہاں شرک کی ایک بہت اہم قسم بیان ہوئی ہے، جو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس پر بڑے بڑے موحدین کو غور کرنا چاہیے کہ دراصل شرک صرف ’’یا علی مدد! ‘‘ کا نعرہ لگانے یا قبر پرستی تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اللہ کے کسی واضح حکم کے مقابلے میں خواہش ِنفس پر عمل پیرا ہونا بھی شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ انسان کو اس کا نفس ہر وقت دنیا سمیٹنے اور زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کے حسین خواب دکھاتا ہے۔ وہ حرام کو اپنانے کے لیے ُپر کشش تو جیہات پیش کرتا ہے۔ مثلاً یہ کہ آج کے بینک کا سود حرام نہیں ہے، پرانے دور میں تو سود کو اس لیے حرام کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے سے غرباء کا استحصال ہوتا تھا، آج کے بینکنگ نظام پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، آج تو بینک کی معاونت کے بغیر کوئی کاروبار چل ہی نہیں سکتا، اس لیے بینک کے تعاون سے فلاں کاروبار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ اگر کسی شخص نے اللہ کے احکام کو پسِ پشت ڈال کر اپنے نفس کی بات مان لی تو گویا وہ اپنے نفس کا بندہ بن گیا۔ اب اس کا نفس ہی اس کا ’’مطاع‘‘ ہے اور جو کوئی بھی کسی کا اصل مطاع ہو گا وہی اس کا معبود ہو گا۔

      عبادت در اصل مکمل غلامی کا نام ہے۔ جس طرح ایک غلام اپنے آقا کا ہر حکم ماننے کا پابند ہے اسی طرح ایک بندے (عبد) پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے معبود کی مکمل فرمانبرداری کرے اور اس کے کسی بھی حکم سے سرتابی نہ کرے۔ عبادت کا یہ مفہوم سورۃ المؤمنون میں درج فرعون کے اس جملے سے اور بھی واضح ہو جاتا ہے: (وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ) کہ ان دونوں (حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ) کی قوم ہماری غلام اور اطاعت شعار ہے۔ اب اگر کوئی شخص زبان سے توحید پرستی کا دعویٰ کرے، لَا اِلٰـہ اِلاَّ اللّٰہ کے وظیفے کرے اور چِلّے کاٹے، لیکن عملاً اطاعت اور فرمانبرداری اپنے نفس کی کرے تو حقیقت میں وہ توحید پرست نہیں بلکہ نفس پرست ہے اور اس کا نفس ہی اصل میں اس کا معبود ہے۔

      اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا: ’’تو (اے نبی!) کیا آپ ایسے شخص کی ذمہ داری لے سکتے ہیں ؟‘‘

UP
X
<>