May 5, 2024

قرآن کریم > الفرقان >sorah 25 ayat 63

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلامًا

اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں ، اور جب جاہل لوگ اُن سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں

آیت ۶۳   وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا : ’’اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی اور نرمی کے ساتھ چلتے ہیں‘‘     

      وہ اپنے آپ کو آقا اور مالک نہیں بلکہ اللہ کے بندے اور غلام سمجھتے ہیں۔ وہ چلتے بھی غلاموں ہی کی طرح ہیں۔ ان کی چال میں اکڑ کی بجائے عاجزی اور فروتنی ہوتی ہے۔

      وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا: ’’اور جب ان سے مخاطب ہوتے ہیں جاہل لوگ تو وہ ان کو سلام کہہ دیتے ہیں۔‘‘

      عربی میں جاہل کا معنی اَن پڑھ یا بے علم آدمی نہیں، بلکہ اس سے مراد اُجڈ اور مشتعل مزاج شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کا برتاؤ کرے۔

      ’’عباد الرحمن‘‘ کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ جاہل اور اُجڈ قسم کے لوگ ان کی بات کو سمجھنے اور اس سے اثر لینے کی بجائے پنجابی محاورہ کے مطابق ان سے محض سینگ پھنسانا چاہتے ہیں یعنی انہیں خواہ مخواہ بحث و مباحثہ میں الجھانا چاہتے ہیں تو انہیں سلام کرکے وہ اپنی راہ لیتے ہیں۔ کیونکہ ایسی گفتگو یا بحث سے وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ حاصل ہونے کی توقع نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایک سمجھدار اور معقول آدمی کو چاہیے کہ وہ مناسب انداز میں دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرے، لیکن جب اسے محسوس ہو کہ اس کا مخاطب جان بوجھ کر بات کو سمجھنا نہیں چاہتا اور خواہ مخواہ کی بحث میں الجھنا چاہتا ہے تو وہ کسی قسم کی بد مزگی پیدا کیے بغیر خود کو ایسی صورت حال سے الگ کر لے۔

UP
X
<>