May 3, 2024

قرآن کریم > الشعراء >sorah 26 ayat 18

قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ

فرعون نے (جواب میں موسیٰ علیہ السلام سے) کہا : ’’ کیا ہم نے تمہیں اُس وقت اپنے پاس رکھ کر نہیں پالا تھا جب تم بالکل بچے تھے؟ اور تم نے اپنی عمر کے بہت سے سال ہمارے یہاں رہ کر گذارے

آیت ۱۸   قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ: ’’فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تمہیں چھوٹے ہوتے اپنے ہاں پالا نہیں تھا؟ اور تم نے اپنی زندگی کے کئی سال ہمارے ہاں گزارے ہیں۔‘‘

      یہ قرآن کا خاص اسلوب ہے کہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے اس کی غیر ضروری تفاصیل چھوڑ دی جاتی ہیں۔ چنانچہ یہاں حضرت موسیٰ کے مصر پہنچنے اور اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے دربار میں جا کر اسے دعوت دینے سے متعلق تمام تفصیلات کو چھوڑ کر فرعون کے جواب کو نقل کیا گیا ہے کہ کیا تم وہی نہیں ہو جس کو ہم نے دریائے نیل میں بہتے ہوئے صندوق سے نکالا تھا اور پھر پال پوس کر بڑا کیا تھا؟ آیت زیر مطالعہ میں قرآن کے الفاظ کا امکانی حد تک مناسب انداز میں ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر کیا گیا ہے، لیکن جس ماحول اور جس انداز میں فرعون نے یہ جملے کہے ہوں گے ان کا تصور کریں تو مفہوم کچھ یوں ہو گا کہ تم ہمارے ٹکڑوں پر پلے ہو اور آج اللہ کے رسول بن کر ہمارے ہی سامنے آ کھڑے ہوئے ہو۔ ہماری ِبلی اور ہمیں کو میاؤں!

      [سورۃ الاعراف کی آیات: ۱۰۴، ۱۰۵ کے ذیل میں یہ وضاحت آ چکی ہے کہ یہ وہ فرعون نہ تھا جس کے گھر میں حضرت موسیٰ نے پرورش پائی تھی، بلکہ یہ اس کا بیٹا تھا۔ زیر مطالعہ آیت کے اسلوب سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اگر یہ وہی فرعون ہوتا تو کہتا کہ میں نے تجھے پالا پوسا، لیکن یہ کہہ رہا ہے کہ تو ہمارے ہاں رہا ہے اور ہم نے تیری پرورش کی ہے۔ ]

UP
X
<>