May 20, 2024

قرآن کریم > الشعراء >sorah 26 ayat 194

عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ

(اے پیغمبر !) تمہارے قلب پر اُترا ہے تاکہ تم اُن (پیغمبروں ) میں شامل ہو جاؤ جو لوگوں کو خبردار کرتے ہیں

آیت ۱۹۴ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ: ’’آپؐ کے دل پر تا کہ آپؐ ہو جائیں خبردار کرنے والوں میں سے۔‘‘

      میں نے قبل ازیں بھی بار ہا یہ ذکر کیا ہے کہ حضور کی ذات میں اصل مہبط وحی آپؐ کا قلب ِمبارک تھا اور قلب ِمبارک کے اندر آپ کی روح وحی کو قبول (receive) کرتی تھی۔ انسانی علم کے حوالے سے یہ بات بھی گزشتہ سطور میں کئی دفعہ دہرائی جا چکی ہے کہ بنیادی طور پر انسانی علم کی دو اقسام ہیں۔ ایک علم تو وہ ہے جو انسان کو اس کے حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ یہ اکتسابی علم (Acquired knowledge) ہے جس کے لیے ہر انسان کوشش اور محنت کرتا ہے۔ اس علم کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ انسان حواسِ خمسہ سے معلومات حاصل کرکے انہیں process کرنیکے لیے دماغ یا عقل (قرآن میں انسان کی اس صلاحیت کے لیے ’’فواد‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے) کے حوالے کرتا ہے۔ شخصی اور اجتماعی سطح پر یہ علم مسلسل ارتقاء پذیر ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست انسانی قلب یا روح پر نازل ہوتا ہے۔ اس Revealed knowledge کی سب سے محفوظ اور مصدقہ ّصورت وحی کی ہے جو فرشتے کے ذریعے صرف انبیاء کرام پر نازل ہوتی تھی اور اسے شیاطین کی دخل اندازی سے مکمل طور پر محفوظ رکھا جاتا تھا۔ البتہ وحی کا دروازہ محمد ٌرسول اللہ کے بعد ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔ اس قسم کے براہ راست علم (وہبی علم) کی جو صورتیں عام انسانوں کے لیے ممکن ہو سکتی ہیں ان میں الہام، القاء، کشف، رؤیائے صادقہ (سچے خواب) وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی ذریعے سے حاصل ہونے والا علم دین اور شریعت میں حجت نہیں بن سکتا۔ دین اور شریعت میں حجت صرف قرآن اور سنت ہی ہیں۔ البتہ کسی کے ذاتی کشف کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات یا ہدایات اگر شریعت کے خلاف نہ ہوں تو خود اُس شخص کے لیے حجت بن سکتی ہیں، کسی دوسرے کے لیے نہیں۔

UP
X
<>