May 7, 2024

قرآن کریم > الشعراء >sorah 26 ayat 227

إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ

ہاں مگر وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے، اور انہوں نے نیک عمل کئے، اور اﷲ کو کثرت سے یادکیا، اور اپنے اُوپر ظلم ہونے کے بعد اُس کا بدلہ لیا۔ اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب پتہ چل جائے گا کہ وہ کس انجام کی طرف پلٹ رہے ہیں

آیت ۲۲۷ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا: ’’سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں اور کثرت سے اللہ کا ذکرکریں‘‘

      یہ البتہ استثنائی حکم ہے۔ کوئی شاعر اگر حقیقی مؤمن ہو اور اعمالِ صالحہ پر کاربند ہونے کے ساتھ ساتھ کثرتِ ذکر اللہ پر بھی مداومت کرے تو وہ یقینا مذکورہ بالا مذمت سے مستثنیٰ ہو گا اور اس کا کلام بھی خیر اور بھلائی کا باعث بنے گا۔ اس سلسلے میں حضرت َحسان بن ثابت کی مثال دی جا سکتی ہے جو دربارِ نبویؐ کے شاعر تھے۔ عرب میں اس وقت شاعری کا بہت رواج تھا اور مشرکین کے شعراء ہجویہ اشعار کے ذریعے حضور کی شان میں گستاخی کرتے تھے۔ چنانچہ اس میدان میں ان کے جواب کی ضرورت محسوس ہوئی تو یہ فریضہ حضرت حسان ّبن ثابت نے انجام دیا۔ اس لحاظ سے آپؓ سب سے پہلے نعت گو شاعر بھی ہیں۔ البتہ شعراء کے بارے میں قرآن کا یہ تبصرہ اس قدر جامع اور مبنی بر حقیقت ہے کہ استثنائی صورتوں میں بھی کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی کسر رہ ہی جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت حسان ّبن ثابت کو اگرچہ دربارِ نبویؐ کا شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور بطور صحابی بھی ان کا درجہ بہت بلند ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ آپؓ مردِ میدان نہیں تھے۔ غزوئہ احزاب کے موقع پر حضور نے ان کو اس مکان پر بطور پہرے دارمتعین فرمایا تھا جہاں پر مسلمان خواتین کو رکھا گیا تھا۔ حضور کی پھوپھی حضرت صفیہ نے ایک یہودی کو مشکوک انداز میں اس مکان کے آس پاس پھرتے دیکھا تو انہوں نے حضرت حسانؓ سے کہا کہ آپ جا کر اس شخص کو قتل کر دیں۔ یہ سن کرحضرت حسانؓ نے صاف معذرت کر دی کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس پر حضرت صفیہؓ ایک لکڑی ہاتھ میں لے کر گئیں اور اس لکڑی سے یہودی کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ اس کا کام تمام کر دیا۔ واپس آ کر انہوں نے حضرت حسانؓ سے کہا کہ اب آپ جا کر اس یہودی کے ہتھیار وغیرہ اتار کر لے آئیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔

      وَّانْتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا: ’’اور وہ بدلہ لیں اس کے بعد کہ اُن پر ظلم کیا گیا ہو۔‘‘

      یہ ان مستثنیٰ قسم کے شاعروں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ضرورت پیش آنے پر ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے اپنی زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے۔

      جیسے حضرت حسان بن ثابت کفار کی طرف سے حضور کے خلاف کہے گئے ہجویہ اشعار کا جواب دیا کرتے تھے اور حضور کی طرف سے مدافعت کرتے تھے۔ حضور نے انؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ حسان ّکے اشعار ُکفار کے خلاف مسلمانوں کے تیروں سے بھی زیادہ مؤثر ہیں۔ بہر حال ہر چیز کی اپنی جگہ پر اہمیت مسلم ہے۔

      وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ: ’’اور عنقریب یہ ظالم جان لیں گے کہ کس جگہ لوٹ کر جائیں گے! ‘‘

      ان کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے ہمارے ہاں اردو میں کہا جاتا ہے کہ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یعنی ابھی ان لوگوں کو نظر نہیں آ رہا، لیکن عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب قرآن کا بیان کردہ بھیانک انجام ان لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہو گا۔

بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم، ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

UP
X
<>