May 18, 2024

قرآن کریم > الشعراء >sorah 26 ayat 63

فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ

چنانچہ ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو۔ بس پھر سمندر پھٹ گیا، اور ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا

آیت ۶۳   فَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ: ’’تو ہم نے وحی کی موسیٰؑ کی طرف کہ ضرب لگاؤ اپنے عصا کے ساتھ سمندر کو! ‘‘

      فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ: ’’تو وہ پھٹ گیا اور ہر حصہ ایک بہت بڑے پہاڑ کی طرح ہو گیا۔‘‘

      اپنے مفہوم کے اعتبار سے آیت کے الفاظ بہت واضح ہیں، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص ان الفاظ کی لا یعنی تاویل کرکے اس واقعہ کو مدوجزر قرار دے تو اسے صرف ڈھٹائی ہی کہا جا سکتا ہے۔ فَلَقَکے معنی پھٹنے کے ہیں اور یہ مادہ اس مفہوم کے ساتھ قرآن میں کثرت سے آیا ہے۔ جیسے: (فَالِقُ الْاِصْبَاحِ) (الانعام:۹۶) ’’چاک کرنے والا صبح کی سفیدی کو‘‘۔ اور (قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ) (الفلق) ’’ کہیے میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی‘‘۔ چنانچہ اس آیت میں بھی لفظ فلق کے لغوی معنی ہی مراد ہیں، یعنی سمندر پھٹ گیا اور اس کے دونوں حصے پہاڑ کی طرح کھڑے ہو گئے۔ کون نہیں جانتا کہ ّمدوجزر کی کیفیت میں نہ تو سمندر پھٹتا ہے اور نہ ہی اس کا پانی چٹان یا پہاڑ کی طرح کھڑا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس تاویل کے مقابلے میں آیت کے الفاظ کا لغوی اعتبار سے تجزیہ کیا جائے تو قرآن کے اس فرمان کی حقانیت بھی ثابت ہو جاتی ہے: (لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ) ’’ (حمٰ السجدۃ :۴۲) کہ باطل اس کتاب پر حملہ نہیں کر سکتا، نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے۔ یعنی قرآن اپنے مفاہیم و معانی کی حفاظت بھی خود کرتا ہے۔

UP
X
<>