May 8, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 24

فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّى إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ

اس پر موسیٰ نے اُن کی خاطر اُن کے جانوروں کو پانی پلا دیا، پھر مڑ کر ایک سائے کی جگہ چلے گئے، اور کہنے لگے : ’’ میرے پروردگار ! جو کوئی بہتری تو مجھ پر اُوپر سے نازل کر دے، میں اُس کا محتاج ہوں ۔‘‘

آیت ۲۴   فَسَقٰی لَہُمَا ثُمَّ تَوَلّٰٓی اِلَی الظِّلِّ: ’’تو موسیٰ نے ان دونوں کے لیے پانی پلا دیا، پھر سائے کی طرف ِپھر آیا‘‘

      حضرت موسیٰ بہت توانا اور قوی تھے۔ ان کی مردانہ غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ لڑکیاں یوں بے بسی کی تصویر بنی کھڑی رہیں ۔ چنانچہ وہ کنویں کی طرف بڑھے اور سب چرواہوں کو پیچھے ہٹا کر ان کی بکریوں کو پانی پلانے کا انتظام کر دیا۔ اس کے بعد وہ لڑکیاں اپنی بکریوں کو لے کر چلی گئیں اور آپ ایک درخت کے سائے میں جا کر بیٹھ گئے۔ تب آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی:

      فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ: ’’تو اُس نے دعا کی: پروردگار! جو خیر بھی ُتو میری جھولی میں ڈال دے، میں اس کا محتاج ہوں ۔ ‘‘

      یہ انتہائی عاجزی کی دعا ہے۔ ہم سب کو یہ دعا یاد کر لینی چاہیے۔ یہاں ’’فَقِیْر‘‘ کے لفظ سے حضرت موسیٰ کی انتہائی احتیاج کی جو تصویر سامنے آتی ہے، اس کو تھوڑی دیر کے لیے ذرا اپنے تصور میں لائیے! ناز و نعم میں پلا بڑھا ایک شخص جس کی پرورش شاہی محل میں ہوئی، اچانک اپنا سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ تن تنہا، جان بچا کر مصر سے نکلتا ہے، نہ معلوم کیسی کیسی مشکلات اور تکالیف اٹھا کر صحرائے سینا عبور کرتا ہے، پھر وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچتا ہے جہاں اس کا نہ کوئی شناسا ہے نہ پُرسانِ حال، نہ سر چھپانے کی جگہ اور نہ روٹی روزی کا کوئی وسیلہ۔ گویا غربت اور محتاجی کی انتہا ہے!

UP
X
<>