May 8, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 25

فَجَاءتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاء قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَلَمَّا جَاءهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

تھوڑی دیر بعد اُن دو عورتوں میں سے ایک اُن کے پاس شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی، کہنے لگی : ’’ میرے والد آپ کو بلارہے ہیں ، تاکہ آپ کو اس با ت کا انعام دیں کہ آپ نے ہماری خاطر جانوروں کو پانی پلایا ہے۔‘‘ چنانچہ جب وہ عورتوں کے والد کے پاس پہنچے اور اُن کو ساری سرگزشت سنائی، تو اُنہوں نے کہا ؛ ’’ کوئی اندیشہ نہ کرو، تم ظالم لوگوں سے بچ آئے ہو۔‘‘

آیت ۲۵   فَجَآءَتْہُ اِحْدٰہُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآءٍ: ’’اتنے میں اس کے پاس ان دو میں سے ایک لڑکی شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی۔ ‘‘

      قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا: ’’اُس نے کہا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تا کہ وہ بدلہ دیں آپ کو اس کا جو آپ نے ہمارے لیے پانی پلایا ہے۔ ‘‘

      یعنی آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے جو مشقت اٹھائی، ہمارے والد آپ کو اس کا کچھ اجر دینا چاہتے ہیں ۔

      فَلَمَّا جَآءَہُ وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ: ’’تو جب موسیٰ اُس کے پاس آیا اور اُس نے اسے اپنا سارا قصہ سنایا‘‘

      اس آیت میں لفظ ’’القَصَص‘‘ آیا ہے اور اسی مناسبت سے اس سورۃ کا نام القَصَص ہے۔

      قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ: ’’اُس نے کہا: اب ڈرو نہیں، تم نجات پا چکے ہو ظالموں کی قوم سے۔ ‘‘

      یعنی آپ کے ان دشمنوں کی اس علاقے تک رسائی نہیں ۔ یہاں آپ کو کسی قسم کی پریشانی یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ یہاں آرام سے رہ سکتے ہیں ۔

      بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں جس شخصیت کا ذکر ہے وہ حضرت شعیب تھے، اس لیے کہ حضرت شعیب کے مدین میں مبعوث ہونے کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ چنانچہ علامہ اقبال نے بھی اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیا ہے: 

اگر کوئی شعیب آئے میسر

شبانی سے کلیمی دو قدم ہے!

یعنی حضرت موسیٰ آٹھ یا دس سال تک چرواہے کی حیثیت سے حضرت شعیب کی خدمت میں رہے اور یہ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ چرواہے سے کلیم اللہ بن گئے۔

      اس مفروضہ کو اگر حقائق و واقعات کی روشنی میں پرکھا جائے تو یہ درست ثابت نہیں ہوتا۔ حضرت شعیب کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول تھے۔ اور کوئی بھی رسول جب کسی قوم کی طرف مبعوث ہوتا ہے تو اس کی بعثت یا رسالت دو ادوار پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک دعوت کا دور اور دوسرا نزولِ عذاب کے بعد کا دور۔ اب اگر یہ فرض کیا جائے کہ حضرت موسیٰ کی حضرت شعیب سے ملاقات آپ کے زمانۂ دعوت میں ہوئی تھی (یعنی اس وقت تک ابھی اہل مدین آپ کی تکذیب کر کے عذاب کے مستحق نہیں ہوئے تھے) تو اس واقعہ کا رنگ بالکل ہی مختلف ہونا چاہیے تھا، اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ حضرت موسیٰ اس زمانے میں مدین پہنچے تھے جب اہل مدین پر عذاب آ چکا تھا اور حضرت شعیب اُس وقت عذاب سے محفوظ رہ جانے والے مؤمنین کے ساتھ رہ رہے تھے تو ایسی صورت میں یہ ہر گز ممکن نہ تھا کہ اللہ کے رسول کی بیٹیاں یوں پریشان حال جنگل میں بکریاں چراتی پھرتیں اور اُمت میں سے کوئی ان کا پُرسانِ حال نہ ہوتا۔ بہر حال واقعہ کا انداز خود بتا رہا ہے کہ حضرت موسیٰ کی ملاقات جس شخصیت سے ہوئی تھی وہ حضرت شعیب نہیں تھے، بلکہ حضرت شعیب کے ساتھ بچ جانے والے مؤمنین کی نسل میں سے کوئی نیک سیرت بزرگ تھے۔ اب یہ معلوم کرنا تو مشکل ہے کہ یہ واقعہ حضرت شعیب کے کتنے عرصے بعد کا ہے، بہرحال اُس وقت تک حضرت شعیب کی تعلیمات کے کچھ نہ کچھ اثرات معاشرے کے اندر موجود تھے۔ 

UP
X
<>