May 8, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 27

قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَى أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ سَتَجِدُنِي إِن شَاء اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ

اُن کے باپ نے کہا : ’’ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک سے تمہارا نکاح کر دوں ، بشرطیکہ تم آٹھ سال تک اُجرت پر میرے پاس کام کرو، پھر اگر تم دس سال پورے کر دو تو یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہوگا۔ اور میرا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ تم پر مشقت ڈالوں ، اِن شاء اﷲ تم مجھے اُن لوگوں میں سے پاؤ گے جو بھلائی کا معاملہ کرتے ہیں ۔‘‘

آیت ۲۷   قَالَ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدَی ابْنَتَیَّ ہٰتَیْنِ: ’’اُس نے (موسیٰ سے) کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کر دوں۔‘‘

      چنانچہ شیخ مدین اپنی بیٹی کے مشورے کی روشنی میں جو ارادہ کر چکے تھے اس بارے میں انہوں نے حضرت موسیٰ کو اعتماد میں لینا چاہا کہ وہ اپنی ایک بیٹی ان کے نکاح میں دینا چاہتے ہیں۔

      عَلٰٓی اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ:’’اس شرط پر کہ تم آٹھ سال تک میری ملازمت کرو۔ ‘‘

      ممکن ہے اس وقت اس علاقے میں نکاح کے بدلے لڑکے سے معاوضہ لینے کا رواج ہو۔ بہر حال شیخ مدین نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ اگر وہ آٹھ سال تک ان کی خدمت کریں، ان کی بھیڑ بکریاں چرائیں اور گھر کے دوسرے کام کاج کریں تو اس کے بدلے میں وہ اپنی ایک بیٹی ان کے نکاح میں دے دیں گے۔

      فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ:’’پھر اگر تم دس سال پورے کر دو تو یہ تمہاری طرف سے ہے۔‘‘

      یعنی اگر تم آٹھ سال کے بجائے دس سال پورے کر دو یہ تمہاری طرف سے ایک طرح کا احسان ہو گا۔

      وَمَآ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْکَ:’’اور میں تمہیں مشقت میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ‘‘

      یعنی تمہیں اطمینان ہونا چاہیے کہ اس دوران میری طرف سے تم پر کوئی بے جا سختی نہیں کی جائے گی اور بہت بھاری کام کے باعث کسی بے جا مشقت میں نہیں ڈالا جائے گا۔

      سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ:’’ان شاء اللہ تم مجھے نیک آدمی پاؤ گے۔ ‘‘

      معاملات کے سلسلے میں ان شاء اللہ تم مجھے ایک راست باز اور کھرا آدمی پاؤ گے۔

UP
X
<>