May 7, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 57

وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِن لَّدُنَّا وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لا يَعْلَمُونَ

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : ’’ اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں گے تو ہمیں اپنی زمین سے کوئی اُچک کر لے جائے گا۔‘‘ بھلا کیا ہم نے ان کو اُس حرم میں جگہ نہیں دے رکھی جو اتنا پر امن ہے کہ ہر قسم کے پھل اُس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں ، جو خاص ہماری طرف سے دیا ہوا رزق ہے؟ لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے

آیت ۵۷   وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا: ’’اور وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم آپؐ کے ساتھ اِس ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنی زمین سے اُچک لیے جائیں گے۔ ‘‘

      ہم اُچک لیے جائیں گے، یعنی ہمیں ختم یا برباد کر دیا جائے گا۔ یہ لفظ اسی مفہوم میں سورۃ الانفال کی آیت ۲۶ میں بھی آیا ہے، جس کا مطالعہ ہم کر چکے ہیں : (وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ) ’’اور یاد کرو جب تم تعداد میں تھوڑے تھے اور زمین میں دبا لیے گئے تھے، تمہیں اندیشہ تھا کہ لوگ تمہیں اُچک لے جائیں گے‘‘۔ مزید برآں یہ لفظ سورۃ العنکبوت کی آیت ۶۷ میں بھی آیا ہے۔

      عام طور پر کسی معاشرے میں حق کو قبول کرنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک تو وہ جو حق کو پہچانتے ہی فوراً قبول کر لیتے ہیں ۔ ایسے لوگ نہ تو اپنی کسی مصلحت کو اس رستے کی دیوار بننے دیتے ہیں اور نہ ہی دوسرے لوگوں کے اس طرف مائل ہونے کا انتظار کرتے ہیں ۔ وہ نہ صرف آگے بڑھ کر بے دھڑک انداز میں حق کو قبول کرتے ہیں بلکہ اس کے بعد وہ ’’ہرچہ باداباد‘‘ کے مصداق حق کی وفاداری میں کسی بھی قسم کی قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ حتیٰ کہ اس راستے میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ان کے برعکس کچھ لوگ حق کو پہچان لینے کے باوجود منتظر رہتے ہیں کہ کچھ اور لوگ بھی آجائیں ، جب کچھ لوگ اس نظریے کو قبول کر کے اس نئے راستے پر چلیں گے اور ان کے چلنے سے اس راستے کے نشانات واضح ہو کر ایک پگڈنڈی بن جائے گی تو ہم بھی شامل ہو جائیں گے۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کا ذکر سورۃ التوبہ کی آیت ۱۰۰ میں اس طرح کیا گیا ہے: (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ) ’’اور پہلے پہل سبقت کرنے والے، مہاجرین اور انصار میں سے، اور وہ جنہوں نے اُن کی پیروی کی نیکی کے ساتھ‘‘۔ یعنی کچھ خوش قسمت لوگ تو پہلے پہل سبقت لے گئے اور کچھ ان کے پیروکار بنے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ان دونوں طرح کے لوگوں کے اپنے اپنے درجات ہیں ۔ ان دو اقسام کے علاوہ ہر معاشرے میں ایک گروہ ایسے کم ہمت لوگوں پر بھی مشتمل ہوتا ہے جو کسی نظریے کی خاطر کسی قسم کی آزمائش جھیلنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ وہ حق کو پہچان تو لیتے ہیں مگر اسے بڑھ کر قبول کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ آیت زیر مطالعہ میں ایسے کم ہمت لوگوں کا قول نقل ہوا ہے کہ اے محمد آپ کی باتیں تو درست ہیں ، آپ کی دعوت دل کو بھی لگتی ہے، لیکن ہم پورے عرب کے ساتھ دشمنی مول نہیں لے سکتے۔ اگر ہم آپ پر ایما ن لے آئیں گے تو یہ لوگ ہم پر چڑھ دوڑیں گے اورہمیں نیست و نابود کرکے رکھ دیں گے۔

      اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّہُمْ حَرَمًا اٰمِنًا: ’’کیا ہم نے انہیں امن والے حرم میں متمکن نہیں کیا؟‘‘

      ان کے اس بہانے کا یہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ جس حرم کی حدود میں وہ سکون اور چین کی زندگی بسر کررہے ہیں ، اسے امن کی جگہ کس نے بنایا ہے؟ تو جس اللہ نے حرم کو امن والی جگہ بنایا ہے، کیا اب وہ اپنے نام لیواؤں کی مدد نہیں کرے گا اور کیا وہ ان کو ان کے دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا؟

      یُّجْبٰٓی اِلَیْہِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَیْئٍ: ’’کھنچے چلے آتے ہیں اس (حرم) کی طرف ہر قسم کے پھل‘‘

      ان الفاظ کا عملی نقشہ دنیا نے مکہ کے اندر ہر دور میں دیکھا ہے۔ پرانے زمانوں میں بھی جب حج کے لیے دنیا کے مختلف علاقوں سے لوگ مکہ آتے تھے تواپنے اپنے علاقوں کے پھل اور دوسری چیزیں اپنے ساتھ لاتے تھے۔ آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں کے بہترین پھل مکہ میں ہر وقت دستیاب رہتے ہیں ۔ بہر حال اس گھر کو امن والی جگہ بھی اللہ ہی نے بنایا ہے اور اُسی نے اس کو پھلوں اور رزق کی فراوانی سے نوازا ہے۔

      رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا: ’’یہ خاص رزق ہے ہماری طرف سے‘‘

      اس لیے کہ ہمارے محبوب بندے ابراہیم نے اپنی اولاد کو یہاں آباد کرتے وقت ہم سے اس بارے میں یہ دعا کی تھی: (رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْٓ اِلَیْہِمْ وَارْزُقْہُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوْنَ) (ابراہیم) ’’اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد (کی ایک شاخ) کو آباد کر دیا ہے اس بے آب و گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس، اے ہمارے پروردگار!تا کہ یہ نماز قائم کریں ، تو تو ُلوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور ان کو رزق عطا کر پھلوں سے، تا کہ وہ شکر ادا کریں‘‘ ۔ ہم نے اپنے بندے کی یہ دعا قبول فرمائی اور یہ اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر طرح کا رزق وافر مقدار میں وہاں بسنے والے لوگوں تک مسلسل پہنچا رہے ہیں ۔

      وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ: ’’لیکن ان کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔‘‘

UP
X
<>