May 5, 2024

قرآن کریم > القصص >sorah 28 ayat 86

وَمَا كُنتَ تَرْجُو أَن يُلْقَى إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلاَّ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِّلْكَافِرِينَ

اور (اے پیغمبر !) تمہیں پہلے سے یہ اُمید نہیں تھی کہ تم پر یہ کتاب نازل کی جائے گی، لیکن یہ تمہارے رَبّ کی طرف سے رحمت ہے، لہٰذا کافروں کے ہر گز مددگار نہ بننا

آیت ۸۶   وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ: ’’اور (اے نبی!) آپ کو تو کوئی توقع نہیں تھی کہ آپ پر کتاب القا کی جائے گی‘‘

      اس سے ملتا جلتا مضمون سورۃ النمل میں بھی آیا ہے: (وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ)

’’ (اے نبی!) قرآن تو یقینا ایک حکیم اور علیم ہستی کی طرف سے آپ پر القا کیا گیا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ بعثت سے پہلے نہ تو آپؐ اس بات کے امیدوار تھے کہ آپؐ پر قرآن نازل کیا جائے اور نہ ہی آپؐ اس کے لیے کوشاں تھے۔ اس سے پہلے آپؐ کی زندگی ایک صادق و امین، شریف النفس انسان اور ایک ایماندار تاجر کی زندگی تھی۔ اور جو تاجرآپ کی اس تاجرانہ زندگی کا اتباع کرتا ہے اُس کے لیے آپؐ نے بایں الفاظ بشارت فرمائی ہے :

 ((اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ)) یعنی وہ تاجر جو بالکل سچا ہو، اپنے معاملات میں جھوٹ کی آمیزش نہ ہونے دے اور امانت دار ہو، وہ (قیامت کے روز) انبیائ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔

      اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ: ’’یہ تو محض آپؐ کے رب کی رحمت سے ہے‘‘

      یہ تو سراسر اللہ کی رحمت، اس کی عطا اور مہربانی ہے کہ اس نے آپؐ کو نبوت کے لیے چنا ہے اور آپؐ کو یہ کتاب عطا فرمائی ہے۔

      فَلَا تَکُوْنَنَّ ظَہِیْرًا لِّلْکٰفِرِیْنَ: ’’پس آپؐ کافروں کے پشت پناہ نہ بنیں ۔‘‘

      اس جملے کا درست مفہوم سمجھنے کے لیے سورۃ النساء کے سولہویں (۱۶) رکوع کا مضمون پیش نظر رہنا چاہیے۔ اس رکوع میں حضور کے سامنے پیش ہونے والے ایک مقدمے پر تبصرہ ہوا ہے۔ یہ ایک منافق کا مقدمہ تھا جس نے چوری کی تھی، لیکن اس کے قبیلے کے لوگوں نے قبائلی عصبیت کی بنا پر اُس کی بے جا حمایت کر کے چوری کا الزام ایک یہودی کے سر تھوپنے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ سورۃ النساء کی آیت: ۱۰۹ میں متعلقہ قبیلے کے لوگوں کو تنبیہہ کی گئی کہ آج دنیا میں تو تم لوگوں نے اس کی خوب وکالت کر لی، لیکن کل قیامت کے دن ایسے مجرموں کو اللہ کی پکڑ سے کون چھڑائے گا؟ گویا مسلمانوں کو واضح طور پر بتا دیا گیا کہ حق و انصاف کے سامنے خاندانی رشتوں اور قبائلی عصبیت کی کوئی اہمیت نہیں ۔

      آیت زیر مطالعہ کے اس آخری جملے کا مفہوم سمجھنے کے لیے مکہ ّکے اس ماحول کو بھی ذہن میں لائیے جہاں آپ کی دعوت کے سبب معاشرہ واضح طور پر دو حصوں میں بٹتا جا رہاتھا۔ رحمی و خونی رشتے منقطع ہو رہے تھے اور دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل ہو رہی تھیں ۔ آپ کے حقیقی چچا ابولہب نے آپؐ کے ساتھ دشمنی کی انتہا کر دی تھی۔ اس پس منظر میں آیت زیر مطالعہ کے اس آخری جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ اے نبی آپ ان کافروں کے ساتھ اپنے رشتوں اور تعلقات کو بالکل کوئی اہمیت نہ دیں ۔ عصبیت کا کوئی خفیف سا شائبہ بھی آپؐ اپنے دل کے قریب نہ پھٹکنے دیں اور ان مشرکین کے ساتھ بالکل کوئی موافقت اور ہمدردی نہ رکھیں ۔ اس سے پہلے اسی سورت (القصص) کی آیت ۱۷ میں حضرت موسیٰ کے حوالے سے بھی بالکل ایسے ہی الفاظ نقل ہوئے ہیں ۔ قبطی کے قتل ہو جانے کے بعد جب حضرت موسیٰ کی توبہ قبول ہوئی تھی تو اس وقت آپ نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے عہد کیا تھا: (فَلَنْ اَکُوْنَ ظَہِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْن) کہ میں آئندہ کبھی بھی مجرموں کا پشت پناہ نہیں بنوں گا۔ چنانچہ آیت زیر نظر میں یہی حکم حضور کو دیا جا رہا ہے کہ آپ کسی بھی حیثیت، کسی بھی انداز اور کسی بھی درجے میں ان کافروں کے مددگار نہ بنیں ۔

UP
X
<>