May 3, 2024

قرآن کریم > العنكبوت >sorah 29 ayat 12

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

اور جن لوگوں نے کفراپنا لیا ہے، اُنہوں نے ایمان والوں سے کہا کہ : ’’ ہمارے راستے کے پیچھے چلو تو ہم تمہاری خطاؤں کا بوجھ اُٹھا لیں گے،‘‘ حالانکہ وہ اُن کی خطاؤں کا ذرا بھی بوجھ نہیں اُٹھا سکتے، اور یہ لوگ یقینا بالکل جھوٹے ہیں

آیت ۱۲   وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰکُمْ: ’’اور یہ کافر کہتے ہیں اہل ایمان سے کہ تم ہمارے راستے کی پیروی کرو، ہم (آخرت میں ) تمہاری خطاؤں کا بوجھ اٹھا لیں گے۔‘‘

      اس آیت میں مکہ کے ماحول میں ایمان لانے والے نوجوانوں کے تیسرے اہم مسئلے کی نشاندہی ملتی ہے۔ یعنی رشتوں کے کٹنے اور کہیں کہیں حوصلے کی کمزوری کے اظہار کے علاوہ ایک سنجیدہ مسئلہ یہ بھی تھا کہ قبیلے کے بڑے بوڑھے ناصحانہ انداز میں نوجوانوں کو سمجھانے بیٹھ جاتے تھے کہ دیکھو برخوردار! تم نوجوان ہو، باصلاحیت ہو، خاندانی کاروبار کے وارث ہو، ایک مثالی کیرئیر اور روشن مستقبل تمہارے سامنے ہے۔ مگر تم جذبات میں آ کر ایک ایسا راستہ اپنانے جا رہے ہو جس میں مشکلات، پریشانیوں اور افلاس کے سوا تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ہماری طرف دیکھو! ہم نے اس دنیا میں ایک عمر گزاری ہے، ہم نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے، ہم زندگی کے نشیب و فراز اور نفع و نقصان کے تمام پہلوؤں کو خوب پہچانتے ہیں ۔ اس نئے دین کی باتیں ہم نے بھی سنی ہیں ، مگر ہم ان کو سن کر جذباتی نہیں ہوئے۔ ہم نے پوری سمجھ بوجھ سے ان باتوں کا تجزیہ کیا ہے اور پھر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارا فائدہ اپنے پرانے طریقے اور اپنے باپ دادا کے دین کی پیروی میں ہی ہے۔ لہٰذا تم ہماری بات مانواور اپنے پرانے طریقے پر واپس آ جاؤ۔ رہی بات آخرت کے احتساب کی تو اس کی ذمہ داری تمہاری طرف سے ہم اٹھاتے ہیں ۔ وہاں اگر کوئی سزا ہوئی تو وہ تمہاری جگہ ہم بھگت لیں گے۔

      وَمَا ہُمْ بِحَامِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰہُمْ مِّنْ شَیْئٍ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ:’’اور وہ نہیں اٹھانے والے ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی۔ یقینا وہ جھوٹ بول رہے ہیں ۔‘‘ 

UP
X
<>