May 3, 2024

قرآن کریم > العنكبوت >sorah 29 ayat 13

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالاً مَّعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ

اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ بھی ضرور اُٹھائیں گے، اور اپنے بوجھ کے ساتھ کچھ اور بوجھ بھی۔ اور یہ لوگ جتنے جھوٹ گھڑا کرتے تھے، قیامت کے دن اِن سے اُن سب کی باز پرس ضرور کی جائے گی

آیت ۱۳   وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ:’’البتہ وہ لازماً اٹھائیں گے اپنے بوجھ بھی اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے بوجھ بھی۔‘‘

      یعنی آخرت میں یہ لوگ صرف اپنی گمراہی کی سزا ہی نہیں بھگت رہے ہوں گے بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کو گمراہ کرنے کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا ہو گا۔ لیکن اے اہل ایمان! اگر تم میں سے کوئی خطا کرے گا تو اس کے لیے وہ خود ہی جوابدہ ہو گا۔ تمہاری کسی خطا کا بوجھ یہ لوگ نہیں اٹھا سکیں گے۔

      وَلَیُسْئَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ: ’’اور ان سے لازماًباز پرس ہو گی قیامت کے دن ا س کے بارے میں جو جھوٹ یہ گھڑ رہے ہیں ۔‘‘

      اس آیت میں تاکید کا پھر وہی اندا زہے (لام مفتوح اور نون مشدد) جو اس سے پہلے آیات ۳، ۷ اور ۱۱ میں آ چکا ہے۔ یعنی قیامت کے دن دوسروں کی خطاؤں کا بوجھ اٹھانے کا یہ دعویٰ ان کا خود ساختہ جھوٹ ہے اور اس دن اپنی اس افترا پردازی کا بھی انہیں حساب دینا پڑے گا۔ اس سلسلے میں اللہ کا اٹل فیصلہ اور قانون بہر حال یہ ہے: (وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی) (الاسراء: ۱۵) کہ اس دن کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔

      اس سورت کی ابتدائی بارہ آیات (پہلی آیت حروفِ مقطعات پر مشتمل ہے) اپنے مضمون کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔ چنانچہ کسی بھی دینی انقلابی تحریک کے کارکنوں کو چاہیے کہ ان آیات کو حرزِ جان بنا لیں اور ان میں درج ہدایات و فرمودات کو اپنے قلوب و اذہان میں پتھر پر لکیر کی مانند کندہ کر لیں ۔ 

UP
X
<>