May 3, 2024

قرآن کریم > العنكبوت >sorah 29 ayat 14

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ

اور ہم نے نوح کو اُن کی قوم کے پاس بھیجا تھا، چنانچہ پچاس کم ایک ہزار سال تک وہ اُن کے درمیان رہے، پھر اُن کو طوفان نے آپکڑا، اور وہ ظالم لوگ تھے

      یہاں سے سورت کے دوسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ حصہ تین رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس میں بنیادی طور پر انباء الرسل کا مضمون ہے، لیکن وقفے وقفے سے بین السطور میں مکے کے ماحول میں جاری کش مکش کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں ۔ اس کے بعد آخری تین رکوعوں پر مشتمل اس سورت کے آخری حصے میں مشرکین اور اہل ایمان سے خطاب ہے۔ یہ دو نوں موضوعات سورت کے آخری حصے میں یوں متوازی چلتے نظر آتے ہیں جیسے ایک رسی کی دو ڈوریاں آپس میں گندھی ہوئی ہوں ۔ ان میں سے کبھی ایک ڈوری نمایاں ہوتی نظر آتی ہے تو کبھی دوسری۔ سورت کے اس حصے میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران انہیں دس اہم ہدایات بھی دی گئی ہیں جو غلبہ ٔدین کی جدوجہد کرنے اور اس راستے میں مصائب و مشکلات برداشت کرنے والے مجاہدین کے لیے رہتی دنیا تک گویا مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں ۔

آیت ۱۴   وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا: ’’اور ہم نے بھیجا تھا نوح کو اُس کی قوم کی طرف، تو وہ رہا ان کے مابین پچاس برس کم ایک ہزار برس۔‘‘

      یعنی حضرت نوح اپنی قوم کے درمیان ساڑھے نو سو سال تک رہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح کا ذکر قرآن مجید میں متعدد بار آ چکا ہے لیکن یہ بات اور کہیں نہیں کہی گئی کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ اپنی قوم کے ساتھ گزارا۔ اگر ہم مکہ کے ان حالات کا نقشہ ذہن میں رکھیں جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی تھی اور پہلے رکوع کا مضمون بھی مد ِنظر ّرکھیں تو حضرت نوح کی دعوت اور جدوجہد کے ساڑھے نو سو سال کے ذکر کی وجہ صاف نظر آ جاتی ہے اور بین السطور میں یہاں جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ اقبال کے الفاظ میں یوں بیان کیاجا سکتا ہے: ؎

یہ موجِ پریشاں خاطر  کو  پیغام  لب  ساحل   نے  دیا

ہے دُور وصالِ بحر ابھی، تو دریا میں گھبرا بھی گئی!

کہ اے مسلمانو! تم لوگ چند برس میں ہی گھبرا گئے ہو۔ ذرا ہمارے بندے نوح کی صدیوں پر محیط جاں گسل جدوجہد کا تصور کرو اور پھر ان کے صبر و استقامت کا اندازہ کرو! چنانچہ تم لوگوں کو اس راستے میں مزید امتحانات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے: ؎

 ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں      ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ! (اقبال)

      سورۃ الانعام میں اسی حوالے سے محمد ٌرسول اللہ کو مخاطب کر کے یوں فرمایا گیا ہے: (وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰٹہُمْ نَصْرُنَاج وَلاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ وَلَقدْ جَآئَکَ مِنْ نَّبَأِ الْمُرْسَلِیْنَ) ’’اور آپ ؐسے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا، تو انہوں نے اس تکذیب پر صبر کیا، اور انہیں ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ان تک ہماری مدد پہنچ گئی۔ اور (دیکھئے اے نبی!) اللہ کے ان کلمات کو بدلنے والا کوئی نہیں ، اور آپؐ کے پاس رسولوں کی خبریں تو آ ہی چکی ہیں ۔‘‘

      فَاَخَذَہُمُ الطُّوْفَانُ وَہُمْ ظٰلِمُوْنَ: ’’تو ان کو آ پکڑا طوفان نے اور وہ ظالم تھے۔‘‘

UP
X
<>