May 2, 2024

قرآن کریم > العنكبوت >sorah 29 ayat 25

وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ

اور ابراہیم نے یہ بھی کہا کہ : ’’ تم نے اﷲ کو چھوڑ کر بتوں کو (خدا) مانا ہوا ہے جس کے ذریعے دُنیوی زندگی میں تمہاری آپس کی دوستی قائم ہے۔ پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کروگے، اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے، اور تمہارا ٹھکانا دوزخ ہوگا، اورتمہیں کسی بھی طرح کے مددگار میسر نہیں ہوں گے۔‘‘

آیت ۲۵   وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا: ’’اور ابراہیم نے کہا کہ تم لوگوں نے اللہ کے سوا جو ُبت بنا رکھے ہیں یہ تو بس دنیا کی زندگی میں تمہاری آپس کی محبت کی وجہ سے ہے۔‘‘

      یہ بہت اہم بات ہے جو حضرت ابراہیم نے اپنی قوم سے کہی تھی کہ میں تمہیں متنبہ ّکر چکا ہوں کہ تم لوگ جن بتوں کو پوجتے ہو ان کی حقیقت کچھ نہیں ہے اور ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ میرے سمجھانے پر تم لوگ یہ بات سمجھ بھی چکے ہو، اس سلسلے میں حق تم لوگوں پر پوری طرح منکشف بھی ہو چکا ہے اورتمہارے دل اس بارے میں حق کی گواہی بھی دے چکے ہیں ۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی تم لوگ اگر بتوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہواور گمراہی کا راستہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو، تو اس کی اصل وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ تم لوگ آپس کے تعلقات، آپس کی دوستیاں اور رشتہ داریاں نبھا رہے ہو۔ دراصل یہ وہ بنیادی عامل (factor) ہے جو ہر سطح پر لوگوں کے لیے حق کو قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ ایک معقول اور با شعور شخص کی تان بھی اکثر یہیں پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ جی ہاں بات تو درست ہے، دل کو بھی لگتی ہے مگر کیا کریں مجبوری ہے! دوسری طرف برادری ہے، رشتہ داریاں ہیں ، دوستیاں ہیں اور کاروبار کی شراکت داریاں ہیں ۔ یہ سب کچھ کیسے چھوڑ دیں ؟ سب سے ناتا کیسے توڑ لیں ؟ زندہ رہنے کے لیے یہ سب کچھ ضروری ہے۔ انسان بھلا اکیلا کیسے زندگی گزار سکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

      یہ عصبیت ہر جگہ اور ہر دور میں اپنا رنگ دکھاتی ہے، حتیٰ کہ خالص دینی بنیادوں پر اٹھنے والی تحریکیں بھی اس کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ ایسی صورت میں یہ سب کچھ یکدم نہیں ہو جاتا بلکہ منفی عصبیت کے خطرناک جراثیم آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے کسی تحریک کی صفوں میں داخل ہوتے ہیں ۔ فرض کریں کہ آغاز میں ایک تحریک کا نظریہ بالکل خلوص پر مبنی تھا۔ اس کے کارکنوں کی وابستگی بھی خالصتاً حق شناسی کی بنیاد پر تھی اور ان میں جدو جہد کا جذبہ بھی قابل رشک تھا، مگر پھر کسی موڑ پر کہیں کوئی غلطی ہو ئی اور تحریک کسی غلط رخ پر مڑ گئی۔ عموماًایسی غلطیوں کے نتائج فوری طور پر سامنے نہیں آتے، بلکہ کچھ عرصے تک تو کارکنوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ان کی تحریک غلط موڑ مڑ چکی ہے۔ لیکن جب اس غلطی کے نتائج واضح طور پر سامنے آنے لگتے ہیں اور کارکنوں کو معلوم بھی ہو جاتا ہے کہ وہ غلط راستے پر جا رہے ہیں تو اس کے باوجود بھی ان کی اکثریت اس تحریک کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ ایسی صورت حال میں وہ لوگ محض ’’عصبیت‘‘ کی وجہ سے اس تحریک کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں ۔ غور سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ کسی بھی جماعت یا تنظیم کے اندر، خواہ وہ خالص دینی بنیادوں پر ہی کیوں نہ اٹھی ہو، کچھ دیر کے بعد شخصی تعلقات، باہمی رشتہ داریاں اور مشترکہ مادی مفادات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ گویا ’’جماعتی عصبیت‘‘ کے علاوہ چھوٹی چھوٹی دوسری عصبیتیں بھی اس کے حلقے کے اندر فعال ہو جاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ہر ایسی جماعت ایک فرقہ بن جاتی ہے۔

      اس نکتے کو اس پہلو سے بھی سمجھنا چاہیے کہ اب نبوت ختم ہو گئی ہے اور قیامت تک دنیا میں کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے زمانے تک اس خلا کو ُپر کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تین چیزوں کا اہتمام فرمایا ہے:

 (1)       قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری کا اہتمام۔ جبکہ اس سے پہلے کسی کتاب کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی گئی۔

 (۲)       ہر صدی میں ایک مجدد اٹھا نے کا اہتمام۔ یہ مجدد دین کے بنیادی حقائق کو تازہ کیا کرے گا اور لوگوں کو دین کی ان حقیقی تعلیمات کی طرف متوجہ کیا کرے گا جنہیں وہ بھول چکے ہوں گے۔

 (۳)       اس چیز کا اہتمام کہ ہر دور میں ایک جماعت ضرور حق پر قائم رہے گی۔ اس ضمن میں نبی اکرم کا فرمان ہے: ((لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ قَائِمَۃً بِاَمْرِ اللّٰہِ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ اَوْ خَالَفَھُمْ …)) ’’میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی۔ جو لوگ ان کو چھوڑ جائیں گے یا ان کی مخالفت کریں گے وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے…‘‘

      اب عملی طور پر کیا ہوتا ہے؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے فرض کریں کہ ایک مجدد پیدا ہوا، اس نے مختلف پہلوؤں سے جدوجہد کی، دینی تعلیمات کی تطہیر کر کے اصل حقائق لوگوں پر واضح کر دیے۔ حالات اور زمانے کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق دین کے مطالبات کی تشریح کر کے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی بھر پور کوشش کی۔ کچھ لوگ اس کی شخصیت سے متاثر ہو کر اس کے گرد جمع ہوئے۔ اعوان و انصار نے اپنا اپنا کردار ادا کیااور ایک مضبوط جماعت قائم ہو گئی۔ ایسی کسی بھی جماعت کے ہراول دستے کے کارکن چونکہ علیٰ وجہ البصیرت اس میں شامل ہوتے ہیں اس لیے ان کی نظریاتی وابستگی خالص اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ البتہ وقت گزرنے کے کے ساتھ ساتھ اس جماعت میں عصبیت کا عنصر داخل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب اس کے بہت سے کارکنوں کی نظریاتی وابستگی کمزور ہوتے ہوتے برائے نام رہ جاتی ہے، لیکن وہ لوگ صرف اس لیے اس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کا تعلق اس جماعت سے تھا۔ پھر تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے اس عصبیت کا دائرہ اور وسیع ہو جاتا ہے۔ اتنے عرصے میں جماعت کے اندر مضبوط شخصی تعلقات پروان چڑھ چکے ہوتے ہیں ، رشتہ داریاں بن چکی ہوتی ہیں ، کاروباری شراکت داریاں اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہوتی ہیں اور یوں یہ جماعت ایک معاشرتی حلقے یا فرقے کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ اب اس کے کارکن اپنی اپنی ترجیحات اور اپنے اپنے مفادات کے تحت اس جماعت یا فرقے کے ساتھ خود کو وابستہ کیے رکھتے ہیں ۔

      تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے ہر جماعت میں اس خرابی کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی حقیقت اور دلیل حضور کا یہ فرمان ہے : ((خَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ)) ’’میری اُمت میں سب سے بہتر میرا دور ہے، پھر اس کے بعد والوں کا، پھر اس کے بعد والوں کا‘‘۔ یعنی حضور نے خیر کے حوالے سے درجہ بدرجہ تین نسلوں کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ کا یہ فرمان اتنی بڑی حقیقت ہے کہ تین نسلوں کے بعد خود آپ کی قائم کردہ جماعت کو بھی زوال آ گیا۔ اور جب حضور کی قائم کردہ جماعت بھی اس فطری عمل کے مطابق زوال کا شکار ہو گئی تو کوئی دوسری جماعت کیونکر اس کمزوری سے مبرا ّہو سکتی ہے؟ چنانچہ تیسری نسل (ایک صدی) کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھر کسی مجدد کو اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ از سر نو انہی بنیادوں پر جدوجہد کا آغاز کرتا ہے۔ اسی طرح یہ عمل قیامت تک کے زمانے تک تسلسل کے ساتھ چلتا رہے گا۔

      چنانچہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہر دور کے مخلص مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حق شناسی کے سلسلے میں خود کو ہر قسم کی عصبیت سے بالاتر رکھ کر پوری دیانت داری سے جائزہ لیتا رہے کہ اس کے دور میں اللہ نے دین کی سربلندی کا کام کس کے حوالے کیا ہے اور وہ کون سی جماعت یا شخصیت ہے جو درست انداز میں اس راہ میں جدوجہد کر رہی ہے۔ پھر جب وہ اس سلسلے میں کسی واضح اور ٹھوس نتیجے پر پہنچ جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے تعلقات و مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اس شخصیت یا اس جماعت کا ساتھ دے جس کی جد وجہد کا رخ اس کی سمجھ اور معلومات کے مطابق درست ہو۔

      ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا: ’’پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے‘‘

      وَّمَاْوٰکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ: ’’اور تم سب کا ٹھکانا آگ ہو گی اور (اس دن وہاں) تمہارا کوئی مدد گار نہیں ہوگا۔‘‘

      تمہاری یہ دوستیاں بس دنیا تک ہی محدود ہیں اور تمہارے یہ گٹھ جوڑ صرف یہیں پر تمہارے لیے مفید ہوسکتے ہیں ۔ کل قیامت کے دن تمہارے یہ دوست اور رشتہ دار تمہیں پہچاننے سے بھی انکار کر دیں گے۔ اپنے انجام کو دیکھتے ہوئے تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہراؤ گے اور باہم ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجو گے۔ اس مشکل گھڑی میں تمہارا کوئی ُپرسانِ حال نہ ہو گا۔ 

UP
X
<>