May 8, 2024

قرآن کریم > العنكبوت >sorah 29 ayat 45

اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلاةَ إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ

(اے پیغمبر !) جو کتاب تمہارے پاس وحی کے ذریعے بھیجی گئی ہے، اُس کی تلاوت کرو، اور نماز قائم کرو۔ بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے، اور اﷲ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اﷲ اُس سب کو جانتا ہے

آیت ۴۵   اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ: ’’تلاوت کرتے رہا کریں اُس کی جو وحی کی گئی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے‘‘

      سورۃ الکہف کی آیت ۲۷میں بھی یہی ہدایت دی گئی ہے: (وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ) ’’اور (اے نبی!) آپ تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے آپ کے رب کی کتاب میں سے‘‘۔ تقرب اِلی اللہ کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن حکیم ہے۔ چنانچہ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۰۳ میں اہل ایمان کو قرآن سے چمٹ جانے کا حکم بایں الفاظ دیا گیا ہے: (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا) ’’اور مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو!‘‘ حضرت ابوسعید خدری کی روایت کردہ یہ حدیث اس مضمون کو مزید واضح کرتی ہے :

 ((کِتَابُ اللّٰہِ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ))

’’کتاب اللہ ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔‘‘

حضور کے اس فرمان کے مطابق قرآن ہی ’’حبل اللہ‘‘ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سورۂ آل عمران کی مذکورہ آیت میں مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ قرآن کی تلاوت کرنے اور اس کی تعلیم و تفہیم میں مشغول رہنے سے بندۂ مؤمن کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور اللہ پر اس کے یقین اور توکل کی کیفیت میں پختگی آتی ہے۔ اسی سے ایک بندئہ مؤمن کو صبر و استقامت کی وہ دولت نصیب ہوتی ہے جو باطل کے مقابلے میں اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے: (وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلاَّ بِاللّٰہِ) (النحل: ۱۲۷) ’’اور (اے نبی!) آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ ہی کے سہارے پر ہے‘‘۔ چنانچہ راہِ حق کے مسافروں کو یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی ہدایت یہی دی گئی ہے کہ قرآن کی تلاوت کو اپنے شبانہ روز کے معمول میں شامل رکھو! اس سے تمہارا تعلق مع اللہ مضبوط ہو گا اور پھر اسی تعلق کے سہارے حق و باطل کی کشا کش میں تمہیں استقامت نصیب ہو گی۔

      وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ: ’’اور نماز قائم کریں !‘‘

      اللہ تعالیٰ کے ہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ حضرت موسیٰ کو کوہِ طور پر پہلی وحی میں ہی اس کی تاکید کر دی گئی تھی: (وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ : (طٰہٰ) ’’اور نماز قائم کرومیرے ذکر کے لیے۔‘‘

      اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ: ’’یقینا نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور برے کاموں سے‘‘

      وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ: ’’اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔‘‘

      یہ گویا اوپر دی گئی پہلی ہدایت کے بارے میں مزید وضاحت ہے۔ تلاوتِ قرآن اور نماز دونوں اللہ کے ذکر ہی کے ذرائع ہیں ، بلکہ قرآن کو تو خود اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجر میں ’’الذکر‘‘ کا نام دیا ہے: (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ) ’’یقینا ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘۔ جب کہ سورۂ طٰہٰ کی مذکورہ بالا آیت (آیت ۱۴) میں قیامِ نماز کا مقصد بھی یہی بتایا گیا ہے کہ نماز اللہ کے ذکر کے لیے قائم کرو۔ اس کے علاوہ ادعیہ ماثورہ بھی اللہ کے ذکر کا ذریعہ ہیں ۔ حضور نے ہمیں ہر عمل اور ہر موقع کی دعا سکھائی ہے۔ مثلاً گھر سے نکلنے کی دعا، گھر میں داخل ہونے کی دعا، بیت الخلاء میں جانے کی دعا، باہر آنے کی دعا، شیشہ دیکھنے کی دعا، کپڑے بدلنے کی دعا۔ یعنی ان دعاؤں کو زندگی کا معمول بنا لینے سے ہر لحظہ، ہر قدم اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کے ذہن اور دل کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ فرض نمازوں کے بعد تسبیح فاطمہ (۳۳ بار سبحان اللہ، ۳۳ بار الحمدللہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر) اور دوسرے اذکار کا بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے۔ گویا یہ سب اللہ کے ذکر کی مختلف شکلیں ہیں ، لیکن سب سے بڑاا ور سب سے اعلیٰ ذکر قرآن مجید کی تلاوت ہے۔

      وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ: ’’اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔‘‘

      اے مسلمانو! یہ یقین اپنے دلوں میں پختہ کر لو کہ اللہ تمہاری ہر حرکت، ہر عمل بلکہ تمہارے خیالات اور تمہاری نیتوں تک سے باخبر ہے ---- اس کے بعد دوسری ہدایت:

UP
X
<>