May 7, 2024

قرآن کریم > العنكبوت >sorah 29 ayat 46

وَلا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَهُنَا وَإِلَهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ 

اور (مسلمانو !) اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو، مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو، ۔ البتہ اُن میں سے جو زیادتی کریں ، اُن کی بات اور ہے۔ اور (ان سے) یہ کہو کہ : ’’ ہم اُس کتاب پر بھی ایمان لائے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، اور اُس پر بھی جو تم پر نازل کی گئی تھی، اور ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہے، اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں ۔‘‘

آیت ۴۶   وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ: ’’اور اہل کتاب سے جھگڑا مت کرو مگر بہترین طریقے سے‘‘

      ان کو دعوت دیتے ہوئے اچھے طریقے سے ان سے گفتگو کرو۔ تمہاری گفتگو میں نہ تو ان کی توہین کا انداز ہو اور نہ ہی ان کی عصبیت ِجاہلی کو بھڑکنے کا موقع ملتا ہو۔ بہر حال اپنا پیغام احسن طریقے سے ان تک پہنچا دو۔ اس کے بعد وہ اپنے نظریے اور عمل کے لیے اللہ کے ہاں خود ذمہ دار ہیں ۔

      اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ: ’’سوائے اُن کے جو اُن میں سے نا انصافی پر ُتل جائیں‘‘

      اس استثناء کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ ان میں غیر منصفانہ طرز عمل دکھانے والے افراد سے مجادلہ کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے، ا ور دوسرے یہ کہ دورانِ گفتگو ایسے لوگوں کی ہٹ دھرمی کے سبب ان کے ساتھ کسی حد تک سخت رویہ اختیار کرنے کی بھی اجازت ہے۔ بہر حال اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو اس کے ساتھ بحث و تمحیص میں یہ دونوں صورتیں بھی پید اہو سکتی ہیں ۔ یعنی اس کا غیر منصفانہ رویہ دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ کچھ سخت جملوں کے تبادلے کی نوبت بھی آ سکتی ہے اور اس کے بعد مزید گفتگو کرنے سے اعراض بھی برتا جا سکتا ہے۔

      وَقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَاُنْزِلَ اِلَیْکُمْ: ’’اور (ان سے) کہیے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اس پر بھی جو ہم پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو آپ لوگوں پر نازل کیا گیا‘‘

      وَاِلٰـہُنَا وَاِلٰہُکُمْ وَاحِدٌ وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ: ’’ اور ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم تو اسی کے سامنے سر جھکا چکے ہیں۔‘‘

UP
X
<>