April 29, 2024

قرآن کریم > الأحزاب >sorah 33 ayat 72

إِنَّا عَرَضْنَا الأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولاً

ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، تو اُنہوں نے اُس کے اُٹھانے سے انکار کیا، اور اُس سے ڈر گئے، اور اِنسان نے اُس کا بوجھ اُٹھالیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ظالم، بڑانادان ہے

آیت ۷۲    اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ: ’’ہم نے اس امانت کو پیش کیا آسمانوں پراور زمین پر اور پہاڑوں پر‘‘

        فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا: ’’تو ان سب نے انکار کر دیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے‘‘

        وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ  اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا: ’’اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یقینا وہ بڑا ظالم اور بڑا نادان تھا۔‘‘

        یعنی انسان نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کر کے اپنے اوپر ظلم کیا اور بڑی نادانی کا ثبوت دیا۔ مذکورہ امانت کے بارے میں بہت سی آراء ہیں اور ہر رائے کے بارے میں مفسرین نے اپنے اپنے دلائل بھی دیے ہیں۔ یہاں ان تمام آراء کا ذکر کرنا اور ایک ایک کے بارے میں دلائل کا جائزہ لینا تو ممکن نہیں ، البتہ اس حوالے سے میں اپنی رائے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے پورا وثوق ہے۔ میرے نزدیک اللہ کی امانت سے مراد یہاں وہ ’’روح‘‘ ہے جو انسان کے حیوانی وجود میں اللہ تعالیٰ نے بطور خاص پھونک رکھی ہے۔ انسان کا مادی وجود عالم خلق کی چیز ہے، جبکہ ’’روح‘‘ کا تعلق عالم ِامر سے ہے۔ (عالم خلق اور عالم امر کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو :سورۃ الاعراف، تشریح آیت: ۵۴)۔ اللہ تعالیٰ نے عالم امر کی اس ’’امانت‘‘ کو عالم خلق کے مادی اور حیوانی وجود کے اندر رکھتے ہوئے اسے خاص اپنی طرف منسوب فرمایاہے: (وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ)  (سورۃ الحجر:۲۹ اور سورۂ ص: ۷۲)۔ چنانچہ اسی روح کی بنا پر انسان مسجودِ ملائک ٹھہرا، اسی کے باعث اسے خلافت کا اعزاز ملا اور اسی کی وجہ سے انسان کا سینہ ’’مہبط ِوحی‘‘ بنا۔

        وحی کا تعلق چونکہ عالم امر سے ہے اور وحی کا حامل فرشتہ بھی عالم امر کی مخلوق ہے، اس لحاظ سے انسان اپنے مادی وجود کے ساتھ فرشتے کے ذریعے وحی کو وصول کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ لہٰذایہ روح ہی ہے جس نے اسے نزولِ وحی کے تجربے کو برداشت کرنے کے قابل بنایا۔ جنات کے اندر چونکہ یہ روح نہیں ہے اس لیے وہ وحی کے حصول (reception) کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جنات کے ہاں کوئی نبی نہیں آیا اور ان کے لیے نبوت کے حوالے سے انسانوں (انبیاء) کی پیروی لازم قرار پائی۔

        اس نکتے کو مزید اس طرح سمجھئے کہ یہاں ’’ظَلُوْمًا جَہُوْلًا‘‘ کے الفاظ میں انسان کے حیوانی وجود کی اس کمزوری کا ذکر ہوا ہے جو اس کے اندر روح پھونکے جانے سے پہلے پائی جاتی تھی۔ اسی کمزوری کو سورۃ الانبیاء کی آیت: ۳۷ میں (خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ) اور سورۃ النساء میں (وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا) کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ کمزوری بہر حال ’’نفخ روح‘‘ سے پہلے کے انسان میں تھی۔ لیکن روحِ ربانی کی امانت ودیعت ہو جانے کے بعد اس کا رتبہ اس قدر بلند ہوا کہ وہ مسجودِ ملائک بن گیا۔ انسانی تخلیق کے ان دونوں مراحل کا ذکر سورۃ التین میں یوں فرمایا گیا ہے: (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ  ثُمَّ رَدَدْنٰــہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ) ’’یقینا ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین شکل و صورت میں۔ پھر ہم نے اس کو لوٹا دیا نچلوں میں سب سے نیچے۔‘‘ یعنی جب ارواح کی صورت میں انسانوں کو پیدا کیا گیا تو وہ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ کے مرتبے کی مخلوق تھی، مگر جب اسے دنیا میں بھیجا گیا تو یہ اپنے جسد ِحیوانی کی کمزوریوں کے سبب جنات سے بھی نیچے چلا گیا۔

        بہر حال میرے نزدیک یہاں جس امانت کا ذکر ہوا ہے وہ انسان کی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے جسد خاکی میں رکھی گئی ہے اور یہی وہ امانت ہے جس کی بنا پر اس کا احتساب ہو گا۔ جس انسان نے اس امانت کا حق ادا کیا وہ آخرت میں : (فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ) (الواقعہ) سے نوازا جائے گا۔ یعنی اس کے لیے راحت اور خوشبو اور نعمتوں کے باغ کی ضیافت ہو گی۔ اس کے برعکس جو کوئی حیوانی خواہشات و داعیات کا اتباع کرتا رہا اور یوں اس امانت میں خیانت کا مرتکب ہوا وہ گویا حیوان ہی بن کر رہ گیا۔ چنانچہ اس کو وہاں (فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍ  وَّتَصْلِیَۃُ جَحِیْمٍ) (الواقعہ) کے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یعنی آخرت میں کھولتے پانی کی مہمانی اور جہنم کے عذاب کی زندگی اس کی منتظر ہو گی۔ 

UP
X
<>