May 5, 2024

قرآن کریم > سبإ >sorah 34 ayat 13

يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاء مِن مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ

وہ جنات سلیمان کیلئے جو وہ چاہتے بنا دیا کرتے تھے ؛ اُونچی اُونچی عمارتیں ، تصویریں ، حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور زمین میں جمی ہوئی دیگیں ! : ’’ اے داود کے خاندان والو ! تم ایسے عمل کیا کرو جن سے شکر ظاہر ہو۔ اور میرے بندوں میں کم لوگ ہیں جو شکر گذار ہوں ۔‘‘

آیت ۱۳   یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَتَمَاثِیْلَ: ’’وہ بناتے تھے اُس کے لیے جو وہ چاہتا تھا، بڑی بڑی عمارتیں اور مجسمے‘‘

        شریعت ِمحمدؐی میں مجسمے بنانا حرام ہے، لیکن ان الفاظ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان کے زمانے میں ایسا کرنا جائز تھا۔ ویسے ’’تِمثال‘‘ عربی زبان میں ہر اُس شبیہہ یا پیکر کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنایا جائے، خواہ وہ جاند ار ہو یا بے جان۔

        وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِیٰتٍ: ’’اور تالابوں کی مانند بڑے بڑے لگن اور بڑی بڑی دیگیں جو ایک جگہ مستقل پڑی رہتی تھیں۔‘‘

        یعنی وہ دیگیں اتنی بڑی ہوتی تھیں کہ چولہوں کے اوپر ہی پڑی رہتی تھی اور وہاں سے انہیں ہلایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس طرح کی دیگیں اجمیر شریف (انڈیا) میں حضرت معین الدین اجمیری ؒ کے مزار پر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

        اِعْمَلُوْٓا اٰلَ دَاوٗدَ شُکْرًا: ’’اے داؤد ؑکے گھر والو! عمل کرو شکر ادا کرتے ہوئے‘‘

        حضرت سلیمان چونکہ حضرت داؤد کے بیٹے تھے اس لیے آپؑ کو آلِ داؤدؑ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے کہ آپؑ پر اللہ کی ان نعمتوں کا شکر لازم ہے۔ چنانچہ آپؑ کا ایک ایک عمل اللہ تعالیٰ کی احسان مندی کا مظہر ہونا چاہیے۔

        وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ: ’’اور (واقعہ یہ ہے کہ) میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہی ہیں۔‘‘ 

UP
X
<>