May 5, 2024

قرآن کریم > سبإ >sorah 34 ayat 15

لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ

حقیقت یہ ہے کہ قومِ سبأ کیلئے خود اُس جگہ ایک نشانی موجود تھی جہاں وہ رہا کرتے تھے، دائیں اور بائیں دونوں طرف باغوں کے دو سلسلے تھے ! : ’’ اپنے پروردگار کا دیا ہوا رزق کھاؤ، اور اُس کا شکر بجالاؤ۔ ایک تو شہر بہترین، دُوسرے پروردگار بخشنے والا !‘‘

آیت ۱۵   لَقَدْ کَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْکَنِہِمْ اٰیَۃٌ: ’’(اسی طرح) قومِ سبا کے لیے بھی ان کے مسکن میں ایک نشانی موجود تھی‘‘۔

        قوم سبا ۸۰۰ قبل مسیحؑ کے لگ بھگ یمن کے علاقے میں آباد تھی۔ انہوں نے اپنے پہاڑی علاقوں میں بہت سے بند تعمیر کر رکھے تھے جن میں سب سے بڑے بند کا نام ’’سد ِمآرب‘‘ تھا۔ ان بندوں سے انہوں نے چھوٹی بڑی نہریں نکال کر میدانی علاقوں کو سیراب کرنے کا ایک مربوط و مؤثر نظام بنا رکھا تھا۔ آب پاشی کے اس نظام کے باعث ان کے ہاں باغات کی کثرت تھی۔ باغات کے دو بڑے سلسلے تو سینکڑوں میلوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ بہر حال یہ اپنے وقت کی بڑی خوشحال اور طاقتور قوم تھی، مگر آہستہ آہستہ یہ لوگ مذہبی و اخلاقی زوال کا شکار ہو تے گئے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی نا شکری اور سرکشی کی سزا دی اور ان سے تمام نعمتیں سلب کر لیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کا سب سے بڑا بند سد مآرب ٹوٹ گیا اور یوں ایک خوفناک سیلاب قہر خداوندی بن کر ان پر ٹوٹ پڑا۔ اس سیلاب کی وجہ سے اس قوم پر ایسی تباہی آئی کہ جس علاقے میں سینکڑوں میلوں پر پھیلے ہوئے باغات تھے وہاں جنگلی جھاڑیوں اور بیریوں کے چند درختوں کے علاوہ ہریالی کا نام و نشان تک نہ رہا۔

        جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّشِمَالٍ: ’’دو باغات(کے سلسلے) تھے دائیں اور بائیں طرف۔‘‘

        کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْا لَہٗ: ’’کھاؤ اپنے رب کے رزق میں سے اور اُس کا شکر اداکرو۔‘‘

        بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ: ’’(تمہارا) شہر بہت پاکیزہ ہے اور (تمہارا) رب بہت بخشنے والاہے!‘‘

        یعنی تمہارے لیے یہ ایک مثالی صورتِ حال ہے۔ رہنے کو تمہیں نہایت عمدہ، سرسبز و شاداب اور زرخیز علاقہ عطا ہوا ہے اور تمہارا رب بھی بہت بخشنے والا ہے جو تمہارے ساتھ بہت نرمی کا معاملہ فرما رہا ہے۔ 

UP
X
<>