May 2, 2024

قرآن کریم > سبإ >sorah 34 ayat 36

قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء وَيَقْدِرُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ 

کہہ دو کہ : ’’ میرا پروردگار جس کیلئے چاہتا ہے، رزق کی فراوانی کر دیتا ہے، اور (جس کیلئے چاہتا ہے) تنگی کر دیتا ہے، لیکن اکثر لوگ اس بات کو سمجھتے نہیں ہیں

آیت ۳۶    قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَقْدِرُ: ’’آپؐ کہیے کہ یقینا میرا رب جس کے لیے چاہتاہے (دنیا کا) رزق وسیع کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے‘‘

        اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کی نعمتوں کی تقسیم لوگوں کے اعمال یا اعتقاد کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگر کسی کے ہاں مال و دولت کی کثر ت ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کا منظورِ نظر ہے۔ حضرت سہل بن سعد الساعدی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: ((لَــوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْھَا شَرْبَۃَ مَاءٍ)) ’’اگر دنیا کی وقعت اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے ایک َپر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی پینے کو نہ دیتا‘‘۔ چنانچہ جس مال اور اولاد پر یہ لوگ اتراتے پھرتے ہیں اللہ کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

        وَلٰــکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ: ’’لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔‘‘

        اکثر لوگ اللہ کی اس تقسیم کے فلسفے کے بارے میں لا علم ہیں۔ وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ رزق کی کمی یا زیادتی کا تعلق کسی انسان کے اللہ کے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے سے نہیں ہے۔ 

UP
X
<>