May 4, 2024

قرآن کریم > يس >sorah 36 ayat 70

لِيُنذِرَ مَن كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ

تاکہ ہر اُس شخص کو خبردار کرے جو زندہ ہو، اور تاکہ کفر کرنے والوں پر حجت پوری ہوجائے

آیت ۷۰    لِّیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا: ’’تا کہ وہ خبردار کر دے اُس کو جو زندہ ہو‘‘

        یہاں ’’زندہ ہونے‘‘ سے مراد روح کا زندہ ہونا ہے۔ یہ مضمون اگرچہ قبل ازیں بھی متعدد مقامات پر بیان ہو چکا ہے، لیکن اس آیت میں یہ واضح ترا نداز میں آیا ہے۔ گویا کچھ انسان جیتے جی مردہ ہوتے ہیں ، جیسے ابوجہل اور ابو لہب بحیثیت انسان زندہ نہیں تھے، وہ صرف حیوانی سطح پر زندہ تھے، جبکہ ان کے اندر ان کی روحوں کی موت واقع ہو چکی تھی۔ چنانچہ قرآن کا اِنذار صرف اسی انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے جس کے اندر اس کی روح زندہ ہو اور اس کی فطرت مسنح نہ ہو چکی ہو۔

        یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر لفظ ’’فطرت‘‘ کے مترادف کے طور پر ’’خلقت‘‘ کا لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے اور اسی کو فارسی زبان میں ’’سرشت‘‘ بھی کہتے ہیں۔ لیکن زیر بحث مضمون کی وضاحت کے لیے جس سیاق و سباق میں لفظ ’’فطرت‘‘ کا حوالہ آیا ہے اس کا مفہوم لفظ ِ’’خلقت‘‘ سے یکسر مختلف ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ ’’خلقت‘‘ کا تعلق عالم ِخلق یعنی مٹی اور زمین سے ہے، اس لیے یہ ضعف اور خامیوں سے عبارت ہے۔ مثلاً قرآن کے مطابق انسان کمزور ( النساء:۲۸) بھی ہے اور جلد باز (بنی اسرائیل:۱۱) بھی۔ گویا انسانی خلقت میں بہت سی کمزوریاں اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس انسانی ’’فطرت‘‘ کا تعلق ’’روح‘‘ سے ہے جو اللہ کی طرف سے انسان میں پھونکی گئی ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا) ( الروم :۳۰) ’’یہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس پر اُس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔ چنانچہ فطرت کمزوریوں اور خامیوں سے پاک ہے، کیونکہ اس کا تعلق عالم امر یا عالم ِبالا سے ہے۔

        وَّیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ: ’’اور کافروں پر قول واقع ہو جائے۔‘‘

        یعنی ان پر حجت تمام ہو جائے اور وہ عذاب کے مستحق ہو جائیں۔ 

UP
X
<>