May 2, 2024

قرآن کریم > يس >sorah 36 ayat 81

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الْخَلاَّقُ الْعَلِيمُ

بھلا جس ذات نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کرسکے؟۔ کیوں نہیں؟ جبکہ وہ سب کچھ پیدا کرنے کی پوری مہارت رکھتا ہے !

آیت ۸۱   اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ: ’’تو کیا جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو، وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسی مخلوق دوبارہ پیدا کر دے!‘‘

        یہاں پر یَخْلُقَ مِثْلَہُمْ کے الفاظ میں ایک اہم مضمون بیان ہوا ہے جو اس آیت کے علاوہ بھی قرآن مجید میں متعدد بار آیا ہے۔ مطلب یہ کہ جب ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا تو ہم میں سے ہر ایک کو بعینہٖ دنیا والا جسم نہیں دیا جائے گا بلکہ ’’اس جیسا‘‘ جسم دیا جائے گا۔ اس کی عقلی توجیہہ یہ ہے کہ انسان کا جسم تو اس کی زندگی میں بھی مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس میں مسلسل تغیرات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کھال سمیت جسم کے تمام اعضا ء کے خلیات اور خون کے سرخ و سفید خلیات مسلسل ختم ہوتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے نئے خلیات بنتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میرا جو جسم دس سال پہلے تھا وہ آج ختم ہو چکا ہے اور اس کی جگہ بالکل ایک نیا جسم بن چکا ہے۔ اسی طرح آج میرا جو جسم ہے چند سال بعد اس کی یہ ہیئت تبدیل ہو جائے گی۔ گویا بچپن میں جسم کی جو کیفیت ہوتی ہے، جوانی تک پہنچتے پہنچتے وہ کیفیت بالکل بدل جاتی ہے، جبکہ بڑھاپے کی عمر میں جوانی والے جسم کی ہیئت بھی مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔ بہر حال ہر انسان کو دوبارہ اٹھنے پر جو جسم دیا جائے گا وہ بعینہٖ دنیا والا جسم نہیں ہو گا، بلکہ ’’اس جیسا‘‘ جسم ہو گا اور اس کی شکل کی سی شکل ہو گی۔ دنیا کی زندگی میں جس جسم سے ا س نے نیک یا برے اعمال کمائے ہوں گے، اسی طرح کے جسم کے ساتھ اسے ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔

        اس کے علاوہ رسول اللہ  کا ایک فرمان بھی اس کے لیے دلیل فراہم کرتا ہے جو بالعموم آپ کی خوش طبعی کی مثال کے طور پر بیان کیا جا تا ہے۔ حضور  کے پاس ایک دفعہ ایک بوڑھی خاتون حاضر ہوئی اوراپنے لیے جنت کی دعا کی درخواست کی۔ آپ  نے جواب میں فرمایا :’’اے اُمّ فلاں! جنت میں بوڑھی عورتیں تو داخل نہیں ہوں گی‘‘۔ اس پر وہ سادہ لوح خاتون رنجیدہ ہوکر رونے لگی۔ آپ  نے یہ دیکھا تو اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ((اَنَّ الْعَجُوْزَ لَنْ تَدْخُلَ الْجَنَّۃَ عَجُوْزًا بَلْ یُنْشِئُھَا اللّٰہُ خَلْقًا آخَرَ، فَتَدْخُلُھَا شَابَّـۃً بِکْرًا)) ’’بوڑھی عورتیں بڑھاپے کی حالت میں ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گی بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک اور ہی اٹھان پر اٹھائے گا، پس تم نوجوان کنواری بن کر جنت میں داخل ہو گی‘‘۔ اور پھر آپ  نے اس خاتون کو یہ آیات پڑھ کر سنائیں : (اِنَّــآ اَنْشَاْنٰـھُنَّ اِنْشَآءً  فَجَعَلْنٰـھُنَّ اَبْکَارًا عُرُبًا اَتْرَابًا). (الواقعۃ) ’’ان کو ہم ایک خاص اٹھان پر اٹھائیں گے، اور ان کو باکرہ بنائیں گے، محبت کرنے والی، ہم عمر۔‘‘ 

        بَلٰی وَہُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ: ’’کیوں نہیں! جبکہ وہ تو بہت تخلیق فرمانے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ 

UP
X
<>