May 2, 2024

قرآن کریم > يس >sorah 36 ayat 82

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

اُس کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ : ’’ ہوجا‘‘ بس وہ ہو جاتی ہے

آیت ۸۲   اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ: ’’اُس کے امر کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘

        یہاں پریہ اہم نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ یہ ’’عالم امر‘‘ کا معاملہ ہے، جبکہ عالم ِخلق کے قوانین مختلف ہیں۔ قرآن میں یہ آیت متعدد بار آئی ہے اور اسی مفہوم اور انہی الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت سورۃ الاعراف کی آیت ۵۴کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم امر میں چیزوں کو وقوع پذیر ہونے کے لیے کوئی وقت درکار نہیں ، جبکہ عالم خلق میں تخلیق کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے انہیں چھ دنوں میں بنایا۔ ان چھ دنوں سے مراد چھ ادوار (Eras) ہو سکتے ہیں ۔ انہیں آپ میلینیم (millenniums) کہہ لیں۔ عین ممکن ہے کہ جس عرصہ کو یہاں ’’دن‘‘ کا نام دیا گیا ہے وہ لاکھوں برس پر محیط ہو۔ لیکن چھ دنوں کے ذکر سے یہ حقیقت تو بہرحال واضح ہوتی ہے کہ زمین وآسمان کی تخلیق میں کچھ وقت لگا۔ اس لیے کہ یہ ’’عالم خلق‘‘ کی تخلیق ہے۔

        اس کے برعکس ’’عالمِ امر‘‘ میں ’’وقت‘‘ کا ّتکلف نہیں پایا جاتا۔ مثلاً روحِ انسانی اور فرشتوں کا تعلق عالمِ امر سے ہے، اس لیے روح کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے کوئی وقت درکار نہیں۔ اسی طرح حضرت جبریل امین آنِ واحد میں عرش سے زمین پر آ جاتے ہیں اور آنِ واحد میں زمین سے عرش پر پہنچ جاتے ہیں۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں اللہ تعالیٰ کے امر کی خصوصی شان کا ذکر عالم امر کے حوالے سے ہوا ہے۔ 

UP
X
<>