May 5, 2024

قرآن کریم > الـمـمـتـحنة >sorah 60 ayat 12

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَن لاَّ يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلا يَسْرِقْنَ وَلا يَزْنِينَ وَلا يَقْتُلْنَ أَوْلادَهُنَّ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 

اے نبی ! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کیلئے آئیں کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں مانیں گی، اور چوری نہیں کریں گی، اور زنا نہیں کریں گی، اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور نہ کوئی ایسا بہتان باندھیں گی جو اُنہوں نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان گھڑ لیا ہو، اور نہ کسی بھلے کام میں تمہاری نافرمانی کریں گی، تو تم اُن کو بیعت کر لیا کرو، اور اُن کے حق میں اﷲ سے مغفرت کی دُعا کیا کرو۔ یقینا اﷲ بہت بخشنے والا، بہت مہربا ن ہے

آيت 12:  يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ:  «اے نبى (صلى الله عليه وسلم) جب آپ كے پاس آئيں مؤمن خواتين آپ سے بيعت كرنے كے ليے»

اب آگے بيعت كا وه متن ديا گيا هے جس كا ذكر سطورِ بالا ميں هوا تھا:

عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا:  «اس بات پر كه وه الله كے ساتھ كسى كو شريك نهيں كريں گى»

وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ:  «اور نه چورى كريں گى، نه بدكارى كريں گى اور نه اپنى اولاد كو قتل كريں گى»

وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ:  «اور نه وه بهتان باندھيں گى جو ان كے هاتھوں اور پاؤں كے مابين سے هو»

يعنى يه كه وه كسى پر زنا كى تهمت نهيں لگائيں گى، كوئى جنسى سكينڈل نهيں گھڑيں گى. اس تهمت كى ايك صورت يه بھى هو سكتى هے كه كوئى عورت كسى مرد پر الزام لگا دے كه اُس نے اس كى آبروريزى كى هے. ايسے الزامات انبيائے كرام عليهم السلام پر لگتے رهے هيں. اس بيعت كى آخرى شق يه هے كه:

وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ:  «اور وه آپ كى نافرمانى نهيں كريں گى معروف ميں»

فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ:  «تو (اے نبى صلى الله عليه وسلم) آپ ان سے بيعت لے ليں اور ان كے ليے استغفار كريں. يقينًا الله بهت بخشنے والا، بهت رحم كرنے والا هے».

احاديث ميں بيعت عقبه كا جو مضمون ملتا هے وه بھى خواتين كى اس بيعت كے مضمون سے ملتا جلتا هے، اسى ليے بيعتِ عقبه اولى كو «بيعت النساء» بھى كها جاتا هے. بيعتِ عقبه اولى كے زمانے تك اهلِ ايمان چونكه ايك باقاعده جماعت كى شكل ميں منظم نهيں هوئے تھے اس ليے اس بيعت كے مضمون ميں جماعتى نظم ونسق سے متعلق كوئى شق موجود نهيں. اسى طرح همارے هاں صوفيا اپنے عقيدت مندوں سے جو بيعتِ ارشاد ليتے هيں اس كا مضمون بھى تقريبًا ان هى نكات پر مشتمل هوتا هے كه ميں شرك نهيں كروں گا، چورى نهيں كروں گا، بدكارى نهيں كروں گا وغيره. گويا بيعتِ عقبه اولى، بيعتِ خواتين اور بيعت ارشاد تينوں كا مضمون تقريبًا ايك هى هے. البته وه بيعت جس بنياد پر مسلمان باقاعده ايك جماعت كے طور پر منظم هوئے وه بيعتِ عقبه ثانيه هے. حضرت عباده بن صامت رضى الله عنه كى روايت كرده ايك متفق عليه حديث ميں اس بيعت كے مضمون كا پورا متن موجود هے.حضرت عباده بن صامت روايت كرتے هيں: (بَايَعْنَا رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلًيْهِ وَسَلَّمَ) كه هم نے بيعت كى الله كے رسول صلى الله عليه وسلم سے (عَلَى السَّمعِ والطَّاعةِ) اس بات پر كه هم آپ صلى الله عليه وسلم كا هر حكم سنيں گے اور اطاعت كريں گے (فِى العُسْرِ) تنگى اور مشكل ميں بھى (وَاليُسْرِ) اور آسانى ميں بھى (وَالمَنشَطِ) اس حالت ميں بھى كه همارى طبيعتوں ميں انشراح هو كه هاں يه كام واقعى بهت مفيد هے اور درست هے (وَالمَكْرَهِ) اور اس حالت ميں بھى كه هميں اپنى طبيعتوں پر جبر كرنا پڑے، يعنى هميں كسى فيصلے سے اتفاق نه هو تب بھى هم آپ كا فيصله مانيں گے. (وَعلَى اَثَرَةٍ علَينَا) اور اس كے باوجود كے كه دوسروں كو هم پر ترجيح دے دى جائے، يعنى همارے مقابلے ميں اگر كسى نووارد كو بھى امير بنا ديا جائے گا تب بھى هم اعتراض نهيں كريں گے. (وَعَلَى اَنْ لَّا نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَهْلَهُ) اور جنهيں آپ ذمه دار يا امير بنائيں گے ان سے هم جھگڑا نهيں كريں گے، بلكه ان كا هر حكم مانيں گے. (وَعَلَى اَن نَّقُوْلَ بِالْحَقِّ اَيْنَمَا كُنَّا) اور يه كه هم حق بات ضرور كهيں گے جهاں كهيں بھى هوں گے. (لَا نَخَافُ فِى اللهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ) اور هم كسى ملامت كرنے والے كى ملامت كے خوف سے اپنى زبان بند نهيں كريں گے.

بيعتِ عقبه ثانى كے اس مضمون كو هم نے صرف ايك فقرے كے اضافے كے ساتھ تنظيم اسلامى كى بيعت كے ليے اختيار كيا هے اور وه اضافى فقره يه هے: اُبَايِعُ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِىْ الْمَعْرُوْفِ كه ميں بيعت كرتا هوں اس بات پر كه هر وه حكم سنوں گا اور مانوں گا جو شريعت كے دائرے سے باهر نه هو! آج ايسى كسى بھى بيعت كے ليے اس فقرے كا اضافه اس ليے ضرورى هے كه حضور صلى الله عليه وسلم كى اطاعت تو مطلق تھى، ليكن آپ كے بعد كسى بھى شخصيت كى مطلق اطاعت پر بيعت كرنا درست نهيں. اسى ليے حضرت ابو بكر صديق رضى الله عنه نے بھى خليفه بننے پر صحابه كرام سے جو بيعت لى وه بھى مشروط تھى. يعنى آپ رضى الله عنه كى بيعت كرنے والا هر شخص آپ كا صرف وهى حكم ماننے كا پابند تھا جو قرآن وسنّت كے دائرے كے اندر هو.

بيعت عقبه ثانيه كے مذكوره مضمون كا تعلق ايك جماعت اور تنظيم كے نظم ونسق سے هے. چنانچه اسى بيعت كى بنياد پر حضور صلى الله عليه وسلم نے ايك مضبوط جماعت منظم فرمائى اور مدينه منوره ميں باره نقيب (نو قبيله خزرج اور تين قبيله اوس سے) مقرر فرما كر اهلِ ايمان كى جماعت كے ذيلى تنظيمى ڈھانچے كى بنياد بھى ركھ دى. اس سے پهلے مسلمانوں كى تعداد بھى كم تھى اور تمام اهلِ ايمان مكه كى حدود ميں هى رهتے تھے. مكه ايك چھوٹا سا شهر تھا اور اهل ايمان كے امير يا سربراه كى حيثيت سے حضور صلى الله عليه وسلم خود شهر ميں موجود تھے. اس ليے كوئى نقيب يا ذيلى امير مقرر كرنے كى ضرورت نهيں تھى. اب مسلمان مكه سے دور مدينه ميں بھى موجود تھے اور ان كى تعداد ميں روز بروز اضافه بھى هو رها تھا اس ليے وهاں حضور صلى الله عليه وسلم نے الگ تنظيمى ڈھانچه تشكيل فرمايا.

جماعتى زندگى ميں عملى جد وجهد كے دوران چونكه جهاد وقتال كے مراحل بھى آتے هيں اور ايسے مراحل ميں خواتين بالواسطه طور پر هى حصه ليتى هيں، اس ليے حضرت عباده بن صامت رضى الله عنه كى روايت كرده متن كے مطابق خواتين سے بيعتِ جهاد نهيں لى گئى، بلكه ان سے آيت زير مطالعه كے مضمون كے مطابق هى بيعت لى گئى كه وه فلاں فلاں افعال نهيں كريں گى اور حضور صلى الله عليه وسلم جو بھى بھلائى كا حكم ديں گے اس كى نافرمانى نهيں كريں گى.

همارے هاں تنظيم اسلامى ميں بھى خواتين سے بيعت كے ليے بعينه يهى الفاظ استعمال كيے جاتے هيں جو اس آيت ميں آئے هيں. دراصل خواتين كى بيعت سے مقصود يه نهيں كه وه بھى غلبه دين كى جدوجهد ميں مردوں كى طرح عملى كردار ادا كريں يا جهاد وقتال ميں حصه ليں، بلكه اس كا مقصد يه هے كه جماعتى زندگى كے ساتھ تعلق كى بنا پر ﴿كُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ﴾ كے حكم كى مصداق بن كر جماعتى زندگى كى فيوض وبركات سے وه بھى بهره ور هوتى رهيں اور جماعتى زندگى كے لزوم سے متعلق احكامات پر بھى ان كا عمل هوتا رهے. لزوم جماعت كے حوالے سے حضور صلى الله عليه وسلم كى درج ذيل احاديث بهت قطعى اور واضح هيں:

(1) «عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ».

«تم پر جماعت كى شكل ميں رهنا فرض هے، اور تم تنها مت رهو، اس ليے كه اكيلے شخص كا ساتھى شيطان بن جاتا هے، ليكن اگر دو (مسلمان) ايك ساتھ رهيں تو وه دُور هو جاتا هے».

حضرت عبد الله بن عمر رضى الله عنهما روايت كرتے هيں كه نبى كريم صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:

(2) «يَدُ اللهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، وَمَنْ شَذَّ شُذَّ اِلَى النَّارِ».

«الله كا هاتھ جماعت پر هے، اور جو شخص خود كو جماعت سے كاٹ ليتا هے وه آگ ميں ڈالا جائے گا».

جماعتى زندگى كى اهميّت اور «جماعت» كے ڈسپلن سے متعلق حضرت عمر رضى الله عنه كا يه فرمان بھى بهت واضح هے:

اِنَّهُ لَا اِسْلَامَ اِلَّا بِجَمَاعَةٍ، وَلَا جَمَاعَةَ اِلَّا بِاَمَارَةٍ، وَلَا اَمَارَةَ اِلَّا بِطَاعَةٍ.

يه ايك حقيقت هے كه اسلام نهيں هے بغير جماعت كے، اور كوئى جماعت نهيں هے بغير امارت كے، اور امارت كا كوئى فائده نهيں اگر اس كے ساتھ اطاعت نه هو».

بهرحال جماعت سازى كا مسنون، منصوص اور مأثور طريقه بيعت كا طريقه هى هے، ليكن آج كل اكثر دينى جماعتوں نے يه مسنون طريقه ترك كر كے دوسرے طريقے اپنا ليے هيں. اگرچه رائج الوقت سب طريقے بھى مباح هيں، ليكن ظاهر هے مباح اور سنت ميں زمين آسمان كا فرق هے. اسى ليے هم نے تنظيم اسلامى كى اساس بيعت كے نظام پر ركھى هے. اس پر هم الله تعالى كا شكر ادا كرتے هيں كه اُس نے هميں اس سنّت كو زنده كرنے كى توفيق عطا فرمائى جو آج كل جماعت سازى كے حوالے سے بالكل متروك هو چكى هے.

UP
X
<>