April 26, 2024

قرآن کریم > الـتحريم >sorah 66 ayat 3

وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ

اور یاد کرو جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے راز کے طور پر ایک بات کہی تھی۔ پھر جب اُس بیوی نے وہ بات کسی اور کو بتلادی، اور اﷲ نے یہ بات نبی پر ظاہر کردی تو اُس نے اُس کا کچھ حصہ جتلادیا، اور کچھ حصے کو ٹال گئے۔ پھر جب اُنہوں نے اُس بیوی کو وہ بات جتلائی تو وہ کہنے لگیں کہ : ’’ آپ کو یہ بات کس نے بتائی؟‘‘ نبی نے کہا کہ : ’’ مجھے اُس نے بتائی جو بڑے علم والا، بہت با خبرہے۔‘‘

آيت 3: وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا: «اور جب نبى (صلى الله عليه وسلم) نے راز دارى سے اپنى كسى زوجه كو ايك بات بتائى.»

        يهاں اس تفصيل ميں جانے كا موقع نهيں كه حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنى كسى زوجه محترمه رضى الله عنها كو كون سى بات بتائى تھى يا آپ نے كن حالات ميں كس چيز كو استعمال نه كرنے كى قسم كھائى تھى. تفاسير ميں ان آيات سے متعلق واقعات بڑى تفصيل سے بيان هوئے هيں. مزيد معلومات كے ليے كسى بھى تفسير سے استفاده كيا جاسكتا هے. بهر حال يهاں جو اصل بات سمجھنے كى هے وه يه هے كه حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنى ايك زوجه محترمه رضى الله عنها كو ايك بات بتائى اور فرمايا كه يه ميرا راز هے، كسى اور سے اس كا ذكر نه كرنا.

فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ: «تو جب اس نے اس كو ظاهر كرديا»

عورتوں كے بارے ميں عام طور پر يهى سمجھا جاتا هے كه وه راز كو چھپانے كے حوالے سے طبعى طور پر كمزور هوتى هيں، ليكن اس ميں بھى كوئى شك نهيں كه يه كمزورى بهت سے مردوں ميں بھى پائى جاتى هے. بهر حال «نه هر زن زن است ونه هر مرد مرد». اصل بات يه هے كه يه كمزورى انسان ميں طبعى طور پر پائى جاتى هے اور اسى بنا پر اس كا صدور ازواج مطهرات رضى الله عنهن سے بھى هوا. چناں چه جس زوجه محترمه رضى الله عنها كو وه بات بتائى گئى تھى انهوں نے اس كا اظهار آپ كى كسى دوسرى زوجه محترمه سے كرديا.

وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ:  «اور الله نے اس بارے ميں ان كو مطلع كرديا»

الله تعالى نے اپنے نبى صلى الله عليه وسلم كو آگاه كرديا كه آپ صلى الله عليه وسلم كا وه راز اب راز نهيں رها.

عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ: «تو نبى (صلى الله عليه وسلم) نے اس پر كسى حد تك (اس بيوى كو) خبردار كيا اور كسى حد تك اس سے چشم پوشى كى.»

يعنى حضور صلى الله عليه وسلم نے اس بات كا جزوى انداز سے ذكر فرما كر اپنى زوجه محترمه رضى الله عنها كو اشارتاً بتاديا كه مجھے اس راز كے افشا هونے كا علم هوچكا هے.

فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ: «تو جب آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اسے يه خبر دى»

قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا: «اس نے كها كه يه آپ كو كس نے بتايا؟»

عام مياں بيوى كے درميان تو ايسے مكالمے ميں كوئى حرج نهيں، ليكن يهاں معامله الله كے رسول صلى الله عليه وسلم كا تھا. اس حوالے سے سورة الحجرات ميں يه تنبيه هم پڑھ چكے هيں: (وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ) (آيت 7) «تمهيں معلوم هونا چاهيے كه تمهارے درميان الله كے رسول هيں». يعنى آپ صلى الله عليه وسلم كے ساتھ تم لوگ دنيوى تعلقات اور رشته داريوں كى بنياد پر معامله نهيں كرسكتے. چناں چه اس معاملے ميں محتاط طرز عمل تو يهى تھا كه فوراً معذرت كرلى جاتى كه حضور صلى الله عليه وسلم مجھ سے واقعتاً غلطى هوگئى، بس بے دھيانى ميں بات ميرے منه سے نكل گئى.

قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ: «آپ (صلى الله عليه وسلم) نے كها: مجھے اس نے بتايا هے جو العليم هے اور الخبير هے.»

مجھے اس الله نے بتايا هے جو سب كچھ جاننے والا هے اور هر چيز سے باخبر هے. اس جواب كے اسلوب اور انداز ميں حضور صلى الله عليه وسلم كے اظهار ناراضى كى جھلك محسوس كى جاسكتى هے.

UP
X
<>