May 19, 2024

قرآن کریم > الـملك >sorah 67 ayat 22

أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

بھلا جو شخص اپنے منہ کے بل اوندھا چل رہا ہو، وہ منزل تک زیادہ پہنچنے والا ہوگا یا وہ جو ایک سیدھے راستے پر چل رہا ہو؟

آيت 22: أَفَمَن يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ: «تو كيا وه شخص جو اپنے منه كے بل گھسٹ رها هے زياده هدايت پر هے يا وه جو سيدھا هوكر چل رها هے ايك سيدهے راستے پر؟»

          اس آيت ميں دو قسم كے انسانوں كے طرز زندگى كا نقشه دكھايا گيا هے۔ ايك قسم كے انسان وه هيں جو انسان هوتے هوئے بھى حيوانى سطح پر زندگى بسر كررهے هيں۔ جيسے ان كى حيوانى جبلت انهيں چلا رهى هے، بس اسى طرح وه چلے جارهے هيں۔ بظاهر تو وه اپنى زندگى كى منصوبه بندياں بھى كرتے هيں، معاشى دوڑ دھوپ ميں بھى سرگرم عمل رهتے هيں، كھاتے پيتے بھى هيں اور دوسرى ضروريات بھى پورى كرتے هيں، ليكن يه سب كچھ وه اپنے جبلى داعيات كے تحت كرتے هيں۔ جبلى داعيات كى تعميل و تكميل كے علاوه ان كے سامنے زندگى كا كوئى اور مقصد هے هى نهيں۔ ان لوگوں كى مثال ايسے هے جيسے كوئى شخص فاصله طے كرنے كے ليے چوپايوں كى طرح اوندھا هو كر منه كے بل خود كو گھسيٹ رها هو۔ ظاهر هے ايسا شخص نه تو راسته ديكھ سكتا هے اور نه هى اسے اپنى منزل كى كچھ خبر هوتى هے۔ دوسرى مثال اس شخص كى هے جو سيدھے راستے پر انسانوں كى طرح سيدھا كھڑا هوكر چل رها هے۔ اس مثال كے مصداق وه لوگ هيں جنهوں نے اپنى منزل طے كرركھى هے۔ وه طے شده منزل پر پهنچانے والے درست راستے كا تعين بھى كرچكے هيں۔ اور پورى يكسوئى كے ساتھ اس راستے پر اپنى منزل كى طرف رواں دواں هيں۔ ظاهر هے دنيا ميں ان لوگوں كى منزل اقامت دين هے جبكه آخرت كے حوالے سے وه رضائے الهى كے حصول كے متمنى هيں۔

          آيت زير مطالعه ميں جو فلسفه بيان هوا هے اس كى وضاحت قبل ازيں سورة الحج كى آيت 73 كے تحت بھى كى جاچكى هے۔ اس فلسفے كا خلاصه يه هے كه جو چيز انسان كو حيوانات سے مميز و ممتاز كرتى هے وه اس كا نظريه اور اس كى سوچ هے۔ گويا انسان حقيت ميں وهى هے جس كا كوئى نظريه هو، كوئى آئڈيل اور كوئى نصب العين هو۔ جو انسان كسى نظريے اور نصب العين كے بغير زندگى گزار رهے هيں وه الله تعالى كے فرمان: (أُوْلَئِكَ كَالأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ) (الاعراف: 179) كے مصداق هيں، يعنى وه جانوروں سے بھى بد تر هيں۔ ظاهر هے جانوروں كو تو شعور كي اس سطح پر پيدا هى نهيں كيا گيا كه وه اپنى زندگى كا كوئى نصب العين متعين كرسكيں۔ ان كى تخليق كا تو مقصد هى يه هے كه انسان كسى نه كسى طور پر انهيں اپنے كام ميں لائيں اور بس۔ سورة الحج كى مذكوره آيت (73) ميں بتوں اور ان كے پجاريوں كى تمثيل كے پردے ميں يه حقيقت بھى واضح كردى گئى هے كه جس انسان كا نظريه يا آئڈيل بلند هوگا اس كى شخصيت بھى بلند هوگى، جبكه گھٹيا آئڈيل كے پيچھے بھاگنے والے انسان كى سوچ و شخصيت بھى گھٹيا هو كر ره جائے گى۔

UP
X
<>