May 19, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 142

وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ 

اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ ٹھہرایا (کہ ان راتوں میں کوہِ طور پر آکر اعتکاف کریں ) ، پھر دس راتیں مزید بڑھا کر ان کی تکمیل کی، اور اِ س طرح اُن کے رَبّ کی ٹھہرائی ہوئی میعاد کل چالیس دن ہوگئی۔ اورموسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ : ’’ میرے پیچھے تم میرے قائم مقام بن جانا، تمام معاملات درست رکھنا، اور مفسد لوگوں کے پیچھے نہ چلنا۔ ‘‘

آیت 142:  وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً: ’’اور ہم نے بلایا موسیٰ کو تیس راتوں کے لیے‘‘

            یعنی کوہِ سینا (طور) پر طلب کیا۔ عام طور پر اس طرح کہنے سے دن رات ہی مراد ہوتے ہیں، لیکن عربی محاورہ میں رات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

            وَّاَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً: ’’اور مکمل کر دیا ہم نے اس مدت کو دس (مزید راتوں) سے‘ تو مدت پوری ہو گئی اس کے رب کی چالیس راتوں کی۔‘‘

            اس طرح حضرت موسیٰ نے طور پر ’’چلہ‘‘ مکمل کیا‘ جس کے دوران آپ نے لگا تار روزے بھی رکھے۔ ہمارے ہاں صوفیاء نے چلہ کاٹنے کا تصور غالباً یہیں سے لیا ہے۔

            وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ہٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ:  ’’اور (جاتے ہوئے) کہا موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہ میری قوم کے اندر میری نیابت کے فرائض ادا کرنا‘ اصلاح کرتے رہنا اور فساد کرنے والوں کے راستے کی پیروی نہ کرنا۔‘‘ 

UP
X
<>