May 19, 2024

قرآن کریم > الأعراف >surah 7 ayat 145

وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ 

اور ہم نے ان کیلئے تختیوں میں ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی، (اور یہ حکم دیا کہ : ‘ ’’ اب اس کو مضبوطی سے تھا م لو، اور اپنی قوم کو حکم دو کہ اس کے بہترین اَحکام پر عمل کریں ۔ میں عنقریب تم کو نافرمانوں کا گھر دِکھادوں گا۔ ‘‘

آیت 145:  وَکَتَـبْنَا لَـہ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ مَّوْعِظَۃً وَّتَفْصِیْلاً لِّـکُلِّ شَیْئٍ:  ’’اور ہم نے لکھ دی اُس کے لیے تختیوں پر ہر طرح کی نصیحت اور ہر طرح (کے احکام) کی تفصیل۔‘‘

            یعنی شریعت کے تمام بنیادی احکام ان الواح میں درج کر دیے گئے تھے۔ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے بنیادی احکام شاہراہِ حیات پر انسان کے لیے گویا  danger signalsکی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے کسی پر پیچ پہاڑی سڑک پر سفر کو محفوظ بنانے کے لیے جگہ جگہ danger cautionsنصب کیے جاتے ہیں اسی طرح انسانی تمدن کے پیچیدہ راستے پر آسمانی شریعت اپنے احکامات کے ذریعے cautionنصب کر کے انسانی تگ و دو کے لیے ایک محفوظ دائرہ مقرر کر دیتی ہے تاکہ انسان اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے، اپنی عقل کو بروئے کار لاکر اپنی مرضی اور پسند نا پسند کے مطابق زندگی گزارے۔ اس دائرے کے باہر ’’محرمات‘‘ ہوتے ہیں جن کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ ان کے قریب بھی مت جانا: تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْہَا. (البقرۃ: 187)۔

            فَخُذْہَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِہَا:  ’’تو (اے موسی) اس کو تھام لو مضبوطی کے ساتھ اور اپنی قوم کو بھی حکم دو کہ وہ اس کو پکڑیں اس کی بہترین صورت پر۔‘‘

            کسی بھی حکم پر عمل درآمد کے لیے مختلف درجے ہوتے ہیں۔ یہ عمل درآمد ادنیٰ درجے میں بھی ہو سکتا ہے، اوسط درجے میں بھی اور اعلیٰ درجے میں بھی۔ لہٰذا یہاں مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی قوم کو ترغیب دیں کہ وہ احکامِ شریعت پر عمل کرتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی طرف بڑھنے کی کوشش کریں۔ یہی نکتہ ہم مسلمانوں کو بھی قرآن میں بتایا گیا: الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَـیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہ. ( الزمر : 18) یعنی وہ لوگ کلام اللہ کو سنتے ہیں پھر جو اس کی بہترین بات ہوتی ہے اس کو اختیار کرتے ہیں۔ ایک طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں ڈھیل اور رعایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ امتیازی پوزیشن نہ سہی‘ فرسٹ یا سیکنڈ ڈویژن بھی نہ سہی‘ بس pass marks کافی ہیں، لیکن یہ معاملہ’’دین‘‘ میں نہیں ہونا چاہیے۔ دینی امور میں عمل کا اچھے سے اچھا اور اعلیٰ سے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی کوشش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم سورۃ المائدۃ میں بھی پڑھ آئے ہیں: اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ دُنیوی اُمور میں تو ہر شخص ع ’’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں!‘‘ کے نظریے کا حامل نظر آتا ہی ہے، لیکن دین کے سلسلے میں بھی ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ اس کا آج اس کے کل سے بہتر ہو۔ دینی امور میں بھی وہ ترقی کے لیے حتی الامکان ہر گھڑی کوشاں رہے۔

            سَاُورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ:  ’’عنقریب میں تمہیں گھر دکھاؤں گا (جس پر اس وقت قبضہ ہے) فاسقوں کا۔‘‘

            اس سے مراد فلسطین کا علاقہ ہے جس پر حملہ آور ہونے کا حکم حضرت موسیٰ کو ملنے والا تھا۔ بنی اسرائیل کا قافلہ مصر سے نکلنے کے بعد خلیج سویز کو عبور کر کے صحرائے سینا میں داخل ہوا تو خلیج سویز کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا‘ یہاں تک کہ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی کونے میں پہنچ گیا جہاں کوہِ طور واقع ہے۔ یہاں پر اس قافلے کا طویل عرصے تک قیام رہا۔ یہیں پر حضرت موسیٰ  کو کوہِ طور پر طلب کیا گیا اور جب آپ تورات لے کر واپس آئے تو آپ کو فلسطین پر حملہ آور ہونے کا حکم ملا۔ چنانچہ یہاں سے یہ قافلہ خلیج عقبہ کے ساتھ ساتھ شمال کی طرف عازمِ سفر ہوا۔ بنی اسرائیل سات آٹھ سو سال قبل حضرت یوسف  کی دعوت پر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آ بسے تھے۔ اب فلسطین میں وہ مشرک اور فاسق قوم قابض تھی جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ سخت اور زور آور لوگ ہیں۔ چنانچہ جب ان کو حکم ملا کہ جا کر اس قوم سے جہاد کرو تو انہوں نے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کر دی کہ ایسے طاقتور لوگوں سے جنگ کرنا ان کے بس کی بات نہیں: قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْہَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ.  (المائدۃ: 22) اس واقعے کی تفصیل سورۃ المائدۃ میں گزر چکی ہے۔ یہاں اسی مہم کا ذکر ہو رہا ہے کہ میں عنقریب تم لوگوں کو اس سر زمین کی طر ف لے جاؤں گا جو تمہارا اصل وطن ہے لیکن ابھی اس پر فاسقوں کا قبضہ ہے۔ ان نافرمان لوگوں کے ساتھ جنگ کر کے تم نے اپنے وطن کو آزاد کرانا ہے۔ 

UP
X
<>